مسائل کی کتاب میں معذور کے بیان میں اس عبارت کا مطلب واضح فرمادیں:’’شرعاً معذور بن جانے کے بعد آئندہ پورے وقت میں بیماری کا پایا جانا ضروری نہیں، ہر وقت میں صرف ایک دفعہ بھی بیماری پائی گئی تو وہ معذور سمجھا جائے گا‘‘۔
الجواب باسم ملهم الصواب
شرعی معذور ہونے کا معیار یہ ہے کہ مثلاً سلس البول (پیشاب کے قطروں کی بیماری) میں مبتلا شخص ایک بار خوب اہتمام سے اس بات کی کوشش کرے کہ نماز کے پورے وقت میں اسے قطروں سے پاکی کا اتنا موقع مل جائے جس میں سنتیں وغیرہ چھوڑ کر فرض پڑھ سکے۔ اگر اتنا وقت نہیں ملتا تو وہ معذور کی تعریف میں داخل ہو گیا، آئندہ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ پورا وقت بیٹھا انتظار کرتا رہے بلکہ صرف پورے وقت میں ایک دفعہ اس عذر کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جب تک یہ حالت رہے گی وہ معذور ہے۔ معذور شرعی کی طہارت کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرے، پھر اس وقت کے اندر اس وضو سے جو نماز چاہے پڑھے۔ وقت کے اندر قطرے آنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ اور کوئی چیز وضو توڑنے والی صادر ہوئی تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، نیز خروج وقت سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ لیکن آئندہ صرف اس کا خیال رکھے کہ ہر نماز کے پورے وقت میں ایک دفعہ عذر پیش آتا ہے یا نہیں۔ اگر پورے وقت میں ایک دفعہ بھی عذر پیش نہ آیا تو معذور کا حکم ختم ہو جائے گا۔ اور اگر پورے وقت میں وہ عذر ایک بار بھی پیش آگیا تو معذور کا حکم برقرار رہے گا۔ سوال میں ذکر کردہ عبارت میں یہی آخری بات بیان کی گئی ہے۔
(وأما) أصحاب الأعذار كالمستحاضة، وصاحب الجرح السائل، والمبطون ومن به سلس البول، ومن به رعاف دائم أو ريح، ونحو ذلك ممن لا يمضي عليه وقت صلاة إلا، ويوجد ما ابتلي به من الحدث فيه فخروج النجس من هؤلاء لا يكون حدثا في الحال ما دام وقت الصلاة قائما، حتی أن المستحاضة لو توضأت في أول الوقت فلها أن تصلي ما شاءت من الفرائض، والنوافل ما لم يخرج الوقت، وإن دام السيلان، وهذا عندنا. (بدائع الصنائع، كتاب الصلاة)
(قوله: وهذا إذا لم يمض عليهم وقت فرض إلا وذلك الحدث يوجد فيه) أي وحكم الاستحاضة والعذر يبقی إذا لم يمض علی أصحابهما وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه ولو قليلا حتی لو انقطع وقتا كاملا خرج عن كونه عذرا. (البحر الرائق، كتاب الطهارة، باب الحيض، حيض المبتدأة ونفاسها)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4308 :