ہم الحمد للہ اپنی اصلاح کی غرض سے مختلف حضرات کے بیانات سنتے رہتے ہیں، لیکن ایک بات ہمیں پریشان کرتی ہے، وہ یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک آتا ہے تو اکثر خطیب جو درود پڑھتے ہیں وہ یا سمجھ نہیں آتا یا پھر انہوں نے کوئی مختصر درود بنایا ہوتا ہے، ممکن ہے کہ جلدی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہو ، عموماً اس طرح کے الفاظ سننے میں آتے ہیں: ’’صلی سلم، صلم، صللا سلم، صم‘‘
اس حوالے سے یہ رہنمائی فرمائیں کہ مختصر درود کون کون سے ہیں؟ اورمذکوہ بالا الفاظ کا پڑھنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا ہم اسے نظر انداز کردیں یا خطیب صاحب کی توجہ اس طرف کروائی جائے؟مزید یہ بھی بیان فرمائیں کہ ایک مجلس میں جتنی دفعہ رسول اللہ ﷺ کا نام آئے تو کیا ہر دفعہ درود پڑھنا لازم ہے؟ ہم تو بعض دفعہ پڑھتے ہیں اور بعض دفعہ رہ جاتا ہے، اگر لازم ہے تو ہم اور زیادہ احتیاط کریں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
۱۔حضور ﷺ کا مبارک نام سننے پر درود شریف پڑھنا واجب ہے، البتہ اگر ایک ہی مجلس میں کئی بار آپ ﷺ کا تذکرہ ہو تو صرف پہلی بار درود شریف پڑھنا واجب ہے، اس کے بعد درود پڑھنا مستحب ہے۔
۲۔ صلی الله عليه وسلّم کے الفاظ کے ساتھ مختصر درود بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور درود کے دیگر الفاظ کے لیے کتاب ’’ذریعۃ الوصول إلی جناب الرسول‘‘ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔الفاظ درود کی مکمل ادائیگی کرنا ضروری ہے، مکمل الفاظ ادا کیے بغیر درود ادا نہیں ہوگا۔ممکن ہے کہ خطیب صاحب مکمل درود پڑھتے ہوں لیکن حاضرین کو مکمل سنائی نہ دیتا ہو۔ اگر ظن غالب ہو کہ خطیب صاحب الفاظ کی کامل ادائیگی نہیں کر رہے تو انھیں اس طرف توجہ دلانے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان سے تحریرًا یہی مسئلہ پوچھ لیا جائے۔ امید ہے کہ وہ اپنی ادائیگی درست فرما لیں گے۔
(واختلف) الطحاوي والكرخي (في وجوبها) علی السامع والذاكر (كلما ذكر) – صلی الله عليه وسلم – (والمختار) عند الطحاوي (تكراره) أي الوجوب (كلما ذكر) ولو اتحد المجلس في الأصح لا لأن الأمر يقتضي التكرار، بل لأنه تعلق وجوبها بسبب متكرر وهو الذكر، فيتكرر بتكرره وتصير دينا بالترك، فتقضی لأنها حق عبد كالتشميت بخلاف ذكره تعالی (والمذهب استحبابه) أي التكرار وعليه الفتوی؛ والمعتمد من المذهب قول الطحاوي، كذا ذكره الباقاني تبعا لما صححه الحلبي وغيره ورجحه في البحر بأحاديث الوعيد: كرغم وإبعاد وشقاء. وقال الشامي تحته: (قوله تكراره أي الوجوب) قيد القرماني في شرح مقدمة أبي الليث وجوب التكرار عند الطحاوي بكونه علی سبيل الكفاية لا العين، وقال: فإذا صلی عليه بعضهم يسقط عن الباقين، لحصول المقصود وهو تعظيمه وإظهار شرفه عند ذكر اسمه – صلی الله عليه وسلم…فقال: مقتضی الدليل افتراضها في العمر مرة، وإيجابها كلما ذكر، إلا أن يتحد المجلس فيستحب التكرار بالتكرار، فعليك به اتفقت الأقوال أو اختلفت. اهـ. فقد اتضح لك أن المعتمد ما في الكافي. وسمعت قول القنية إنه به يفتی، وأنت خبير بأن الفتوی آكد ألفاظ التصحيح. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4343 :