کیا اللہ تعالی کے ذاتی یا صفاتی ناموں میں سے کوئی نام بغیرلفظ عبد یا غلام کے رکھنا جائز ہے ؟ اور ’’ھو العلی العظیم ‘‘ کو سامنے رکھ کر کہنا کہ ’’علی ، اللہ کا نام ہے‘‘ کیسا ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
الله تعالیٰ كے تمام صفاتی ناموں كا حکم ایک نہیں ہے، کچھ صفاتی نام ایسے بھی ہیں کہ قرآن و حدیث میں بھی ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا گیا ہے، لہذا جن اسماء کا اطلاق نصوص میں غیر اللہ پر کیا گیا ہے کسی کا وہ نام رکھنا عبد یا غلام کے سابقے کے بغیر بھی درست ہوگا۔ اور جن ناموں کا استعمال قرآن و حدیث میں غیر اللہ کے لیے نہ کیا گیا ہو انھیں غیر اللہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’اس میں تفصیل یہ ہے کہ اسماء حسنیٰ میں بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لیے استعمال کرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ،تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لیےقرآن وحدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم ،رشید ،علی کریم،عزیز وغیرہ اور اسمائے حسنیٰ میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لیے استعمال قرآن وحدیث سے ثابت نہیں وہ صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز و حرام ہے۔‘‘(معارف القرآن ،سورۃ الاعراف ،جلد4،ص 132،مطبع:ادارہ المعارف کراچی)
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں عبد اور غلام کے سابقے کے بغیر کسی انسان کا نام علی رکھنا جائز ہے۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4286 :