السلام علیکم!اس حدیث کا حوالہ درکار ہے:’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علماء اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں، پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی تو (جو علماء ایسا کریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
الجواب باسم ملهم الصواب
یہ حدیث مختلف الفاظ میں حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے۔
چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو جامع الاحادیث میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:العلماء أمناء الرسل علی عباد الله ما لم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا فإن خالطوا السلطان وداخلوا الدنيا فقد خانوا الرسل فاحذروهم واعتزلوهم (جامع الاحاديث، حرف العين)
ترجمه:’’ علماء اللہ کے بندوں پر رسولوں کے وارث ہیں جب تک وہ بادشاہ سے نہ ملیں اور دنیا میں مشغول نہ ہوں اگر وہ بادشاہ سے مل جائیں اور دنیا میں مشغول ہو جائیں تو تحقیق انہوں نے رسولوں سے خیانت کی پس تم ان سے بچو اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرو‘‘۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام سیوطی فرماتے ہیں: ولفظ الديلمی واجتنبوهم (الحسن بن سفيان، والعقيلی، والحاكم فی تاريخه، والقاضی أبو الحسن بن عبد الجبار بن أحمد الأسدأباذی فی أماليه، وأبو نعيم، والديلمی، والرافعی عن أنس)وأخرجه أيضًا: ابن أبی حاتم فی العلل ، وقال: قال أبی: هذا حديث منكر يشبه أن يكون فی الإسناد رجل لم يسم وأسقط ذلك الرجل. قال المناوی: قال ابن الجوزی: موضوع إبراهيم لا يعرف والعبدی متروك. وقال المؤلف [أی السيوطی] : قوله موضوع ممنوع، وله شواهد فوق الأربعين فنحكم له عن مقتضی صناعة الحديث بالحسن. (جامع الاحاديث)
ترجمہ:’’ حسن نے سفیان ،عقیلی،اور حاکم نے اپنی تاریخ میں اور قاضی ابو الحسن بن عبد الجبار بن احمد اسد اباذی نے اپنی امالی میں اور ابو نعیم اور دیلمی اور رافعی نے انس رضی اللہ عنہ سے اس روایت کی تخریج کی ہے ابن ابی حاتم نے بھی علل میں اس روایت کی تخریج کی ہے اور کہا : میرے والد نے فرمایا یہ حدیث منکر ہے ممکن ہے کہ سند میں کوئی آدمی ہو جس کا نام نہیں لیا اور اس آدمی کو سند سے ساقط کر دیا۔ مناوی نے کہا: ابن جوزی فرماتے ہیں یہ روایت موضوع ہے ابراہیم غیر معروف ہے اور عبدی متروک آدمی ہے علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو موضوع کہنا درست نہیں کیونکہ اس روایت کے چالیس سے زیادہ شواہد ہیں پس ہم اس پر حسن کا حکم لگاتے ہیں‘‘۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے،البتہ علامہ سیوطیؒ کے بقول کثرت طرق کے باعث یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ کی ہوجاتی ہے۔ اس روایت میں علمائے سوء یعنی جو اپنے علم کے ذریعے دنیا کماتے ہیں، اس کی خاطر حکامِ وقت کی بے جا حمایت کرتے ہیں، ان کی مذمت ہے۔ جبکہ بکثرت روایات میں علمائے ربانیین کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ علماء کی تعظیم وتوقیرکو بڑھانے کے لیے فضائل والی احادیث کو بیان کرنا چاہیے۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4150 :