ایک شخص جو کچھ عرصہ قبل اسلام لائے انہیں ایک گناہ کی عادت تھی انہوں نے منت مانی کہ اگر مجھ سے یہ گناہ دوبارہ سرزد ہوگیا تو میں سات دن لگا تار روزے رکھوں گا، اب وہ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا روزے ہی رکھے جائیں یا اس کا کوئی کفارہ بھی دیا جاسکتا ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں جس گناہ کے سرزد ہونے پر سات روزے رکھنے کی نذر مانی ہے تو اس گناہ کے سرزد ہونے پر لگاتار سات روزے رکھناہی لازم ہو گا اس کے بد لے میں کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «من نذر وسمی فعليه الوفاء بما سمی» (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف) وإعتاق رقبة وحج ولو ماشيا فإنها عبادات مقصودة (الدر المختار، كتاب الأيمان)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4257 :