ماہ رجب کے روزے کی فضیلت پر مشتمل درج ذیل حدیث کے بارے میں بتائیے کیا یہ صحیح ہے؟
فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے اور رجب کے دوسرے دن کا روزہ دو سال کا کفارہ ہے اور تیسرے دن کا روزہ ایک سال کا کفارہ ہے اور پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی)
الجواب باسم ملهم الصواب
مذکورہ حدیث الجامع الصغیر میں ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:صَوْمُ أَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ رَجَبٍ كَفَّارَةُ ثَلاَثِ سِنِينَ وَالثَّانِي كَفَّارَةُ سَنَتَيْنِ وَالثَّالِثِ كَفَّارَةُ سَنَةٍ ثم كل يوم شهرا(الجامع الصغير، رقم الحديث: 7940)
ترجمہ:’’ رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے اور رجب کے دوسرے دن کا روزہ دو سال کا کفارہ ہے اور تیسرے دن کا روزہ ایک سال کا کفارہ ہے اور پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔‘‘
البتہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے۔
علامہ مناوی فرماتے ہیں: حديث ضعيف جدا. (فيض القدير، حرف الصاد) ترجمہ:’’یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ شراح حدیث نے بیان فرمایا کہ رمضان کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھنے کا ثواب حضورﷺ نے پورے سال کے روزوں کے ثواب کے برابر قرار دیا اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ فرض کا ثواب نفل سے زیادہ ہے تو جب رمضان کے روزوں کا ثواب ایک سال کے برابر ہے تو کسی اور مہینے کے ایک دن کا روزہ کیسے تین سال کے برابر ہوگا اس طرح اس حدیث میں نکارت آجاتی ہے۔
ولا يخفی ما ثبت من أن من صام رمضان وأتبعه بستّ من شوال كصيام السنة وقد تقرر أن فضيلة الفريضة تضعف علی فريضة النفل، فهذه الفضائل تدل علی نكارة الحديث. (التنوير شرح الجامع الصغير،کتاب الحدود، حرف الصاد)
اسی طرح شراح حدیث نے یہ بھی بیان فرمایا کہ رجب کے روزے کے بارے میں کسی صحیح حدیث سے نہ تو فضیلت ثابت ہے اور نہ ہی ممانعت۔
قال ابن الصلاح وغيره: لم يثبت في صوم رجب نهي ولا ندب. (فيض القدير، حرف الصاد)
لہذا اس حدیث میں بیان کردہ فضیلت کا اعتقاد رکھنا، اس کو آگے بیان کرنا درست نہیں ہے، احتیاط کرنا لازم ہے۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4356 :