میرا سوال یہ ہے کہ نان الکوحولک پرفیومز عورتوں کے لیے جائز ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو کیا وجہ ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر پرفیوم میں شامل کیا گیا الکوحل کھجور یا انگور کے علاوہ کسی بیج، پھول یا پھل سے کشید کیا جاتا ہے تو وہ پاک ہے اور اس کا استعمال بھی جائز ہے۔ اور اگر الکوحل کھجور یا انگور سے حاصل کیا گیا ہو تو وہ ناپاک ہے اور اس کا استعمال جائز نہیں۔ آج کل پرفیوم سمیت زیادہ تر اشیاء وغیرہ میں جو الکحل استعمال کیا جاتا ہے وہ ان انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر چیزوں سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔
وأما غیر الأشربة الاربعة فلیست نجسة عند الإمام ابي حنیفة وبهذا تبیین حکم الکوحل المسکرة التی عمت بها البلوی الیوم فانها مستعمل في کثیر من الأدوية والعطور والمرکبات فانها ان اتخذت من العنب او التمر فلا سبیل الی حلتها او طهارتها وان اتخذت من غیرهما فالامر فيها سهل علی مذهب ابي حنیفة ولا یحرم استعماله للتداوي اولاغراض مباحة اخریٰ ما لم یبلغ حد الاسکار لانها انما استعمل مرکبة مع المواد الاخرٰی ولا یحکم بنجاستها اخذا یقول ابی حنیفة وان معظم الکحول التی تستعمل الیوم فی الادوية والعطور وغیرها لا تتخذ من العنب او التمر انما تتخذ من الحبوب او القشور او البترول وغیره. (تکملة فتح الملهم، کتاب الاشربة، حکم الکحول المسکرة)
2۔ عورت کے لیے کوئی خوشبو یا پرفیوم لگا کر غیر محرم مردوں کے سامنے سے گزرنا یا گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں۔ البتہ اگر گھر ہی میں رہتے ہوئے محض اپنے شوہر کے لیے پرفیوم لگائے تو جائز ہے۔
شارح مشکوٰۃ المصابیح ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:عن أبي موسی : عن النبي صلی الله عليه و سلم قال كل عين زانية والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا يعني زانية قال الملا علي القارئ: قال ابن الملك: وفيه تشديد ومبالغة في منع النسوة عن خروجهن من بيوتهن إذا تعطرن، وإلا فبعض الأعين قد عصمها الله تعالی عن الزنا بالنظر إليهن. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب الجماعة وفضلها)
ترجمہ:’’حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے۔ ملا علي قاری رحمہ اللہ نے ابن الملک کے حوالے سے فرمایا کہ اس حدیث میں عورت کو خوشبو لگا کر باہر نکلنے پر سختی اور مبالغے کے ساتھ روکا گیا ہے، ورنہ بعض نظروں کو اللہ نے اس چیز سے محفوظ بھی رکھا ہے کہ انھیں دیکھ کر زنا کی مرتکب ہوں۔
ويسن للمرأة في غير بيتها بما يظهر لونه ويخفی ريحه، لخبر رواه الترمذي والنسائي من حديث أبي هريرة رضي الله عنه طيب الرجال ما ظهر ريحه وخفي لونه، وطيب النساء ما خفي ريحه وظهر لونه ولأنها ممنوعة في غير بيتها مما ينم عليها، لحديث: أيما امرأة استعطرت، فمرت بقوم ليجدوا ريحها فهي زانية وفي بيتها تتطيب بما شاءت، مما يخفی أو يظهر، لعدم المانع. (الموسوعة الفقهية الكويتية، كتاب التطيب، تطيب الرجل والمرأة)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4332 :