میرا سوال سود سے متعلق ہے، اگر کوئی بینک سے گھر کے لیے قرض لیتا ہے جس کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن واپسی قرضے کی اصل رقم سے زیادہ ہے۔ لینے والا شخص گھر کے کرائے کے مد میں جو پیسے دیتا تھا وہی رقم یہ سوچ کر قسط ادا کرتا ہے کہ کم ازکم چند سالوں بعد گھر تو اپنا ہوجائے گا ، بیشک دگنی رقم ادا کرنی پڑے۔ تو کیا یہ سود ہے؟ آسٹریلیا میں یہ طریقہ رائج ہے، جبکہ مجھے اللہ سے خوف آتا ہے اگر میں یہ طریقہ اختیار کروں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
سوال میں ذکر کردہ معاملہ سودی قرض کا ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں۔
يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۞فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِه وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ(البقرة:278،279)
ترجمہ:’’ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مؤمن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو ۔ پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو، اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے‘‘۔
لہذا سودی قرض لینے میں بظاہر دنیا کا کتنا ہی بڑا فائدہ نظر آتا ہو لیکن اللہ کے خوف سے اسے چھوڑ دیں تو ان شاء اللہ آخرت میں اس کے بدلے کہیں گنا زیادہ بڑھ کر اجر و ثواب اور اللہ کی دائمی رضا حاصل ہوگی۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4251 :