لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

 یہ جو فصل میں عشر ادا کرنا ہوتا ہے جیسے کپاس کی فصل ہے ایک لاکھ روپے پہ بکی ہے تو کیا اس پر عشر آئے گا یا اس  پیدار پر جو مجھے ستر ہزار روپے خرچ کرنا پڑا اور تیس ہزار کا منافع ہوا، اس منافع پر عشر لازم آئے گا؟ اور اگر مجھے اس میں نقصان ہوتا ہے مثلا ایک لاکھ کی پیداوار پر ایک لاکھ چالیس ہزار خرچ کرنا پڑا تو کیا اس صورت میں بھی عشر ادا کرنا لازم ہو گا؟ 

الجواب باسم ملهم الصواب

 عشر کی ادائیگی فصل کے قابل استعمال ہونے کے بعد لازم ہے، اب یا تو فصل کٹنے کے بعد جتنی کپاس حاصل ہوئی اس کا دسواں حصہ نکالا جائے یا پھر پوری فصل کی قیمت لگا کر قیمت کا دسواں حصہ عشر میں ادا کیا جائے۔ البتہ عشر کل پیداوار یا اس کی قیمت پر لازم ہوگا نہ کہ صرف منافع پر۔

فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتی يجوز أداء قيمته عندنا. (بدائع الصنائع، كتاب الزكاة، فصل شرائط فرضية زكاة الزروع)

فصل پر جو خرچہ آتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم کا خرچہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق زراعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثلا کھاد، اسپرے، ٹریکٹر، مزدور کی اجرت وغیرہ ان اخراجات کو مؤنۃ الزرع کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کے خرچے کا تعلق زراعت سے نہیں ہوتا بلکہ فصل کے فروخت کرنےکے ساتھ ہوتا ہے۔ مثلا گاڑی میں لوڈ کرنا ، پیک کرنا، منڈی تک پہنچانے کا خرچہ۔ پہلی قسم کاخرچہ عشر ادا کرنے سے پہلے الگ نہیں کیا جائے گا، البتہ دوسری قسم کا خرچہ عشر ادا کرنے سے پہلے الگ کیا جاسکتا ہے۔

(الف) المؤنة وهي الثقل والمعنی بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع. (مجمع الانهر، كتاب الزكاة، باب زكاة الخارج)

(ب) مؤنة حمل العشر علی السلطان دون صاحب الأرض. (حاشية الشلبي علی تبيين الحقائق. كتاب الزكاة، باب العشر)

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر پیداوار حاصل ہوئی تو اس پر عشر لازم ہے چاہے خرچہ فصل کی پیداوار سے زیادہ ہوجائے ۔مثلا اگر پیداوار ایک لاکھ کی ہوئی اور خرچہ ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہواتو کل ایک لاکھ میں عشر ادا کرنا لازم ہے، کیونکہ عشر اور زکوۃ میں فرق ہے، عشر ہر حال میں پیداوار پر لازم ہوتا ہے  چاہے مالک کو پیداوار کی آمدن سے زیادہ خرچہ کرنا پڑا ہو یا مالک خود مقروض ہویا مالک کا انتقال ہوجائے عشر ہر صورت میں ادا کیا جائے گا۔ 

(الف) يؤخذ من التركة ويجب مع الدين. (الدر المختار، كتاب الزكاة، باب العشر)

(ب) (قوله: بلا رفع مؤن) أي يجب العشر في الأول ونصفه في الثاني بلا رفع أجرة العمال ونفقة البقر وكري الأنهار وأجرة الحافظ ونحو ذلك درر قال في الفتح يعني لا يقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة بل يجب العشر في الكل؛ لأنه – عليه الصلاة والسلام – حكم بتفاوت الواجب لتفاوت المؤنة ولو رفعت المؤنة كان الواجب واحدا وهو العشر دائما في الباقي؛ لأنه لم ينزل إلی نصفه إلا للمؤنة والباقي بعد رفع المؤنة لا مؤنة فيه فكان الواجب دائما العشر لكن الواجب قد تفاوت شرعا فعلمنا أنه لم يعتبر شرعا عدم عشر بعض الخارج وهو القدر المساوي للمؤنة أصلا اهـ وتمامه فيه. (الدر المختار، كتاب الزكاة، باب العشر)

البتہ اس میں سے زراعت کے علاوہ ہونے والے اخراجات کو علیحدہ کرنے کا اختیار ہے، نیز اگر فصل کی سیرابی میں خرچہ آیا ہےتو شریعت نے عشر کے بجائے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لازم کیا ہے۔

(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة. (الدر المختار، كتاب الزكاة، باب العشر)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4262 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل