جب گھر کی تعمیر شروع کی جائے تو اس میں برکت کے لیے صدقہ کا جانور وہیں ذبح کر کے اس کا خون اس کی بنیادوں میں ڈال دیا جائے. براہ مہربانی قرآن و حديث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنا درست ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
گھر کی تعمیر شروع کرتے وقت جانور ذبح کرکے اس کا خون مکان کی بنیاد میں ڈالنا رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعین اور ائمہ دین رحمہم اللہ کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا اس عمل سے برکت حاصل ہونے کا عقیدہ رکھنا بدعت ہے۔ البتہ اگر اس موقعہ کی مناسبت سے خیرات یا صدقے کے طور پر کوئی جانور ذبح کر کے اس کا گوشت اقربا یا غربا میں کھلایا جائے اور جانور کو ذبح کرنا ضروری نہ سمجھا جائے تو یہ جائز ہے۔
حدیث شریف میں ہے: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ». (مسلم، باب نقض الأحكام الباطلة) ترجمہ: جس نے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو مردود ہے۔
(ذبح لقدوم الأمير) ونحوه كواحد من العظماء (يحرم)…والفارق أنه إن قدمها ليأكل منها كان الذبح لله والمنفعة للضيف أو للوليمة أو للربح، وإن لم يقدمها ليأكل منها بل يدفعها لغيره كان لتعظيم غير الله فتحرم…(قوله والفارق) أي بين ما أهل به لغير الله بسبب تعظيم المخلوق وبين غيره، وعلی هذا فالذبح عند وضع الجدار أو عروض مرض أو شفاء منه لا شك في حلّه لأن القصد منه التصدق. حموي، ومثله النذر بقربان معلقا بسلامته من بحر مثلا فيلزمه التصدق به علی الفقراء فقط كما في فتاوی الشلبي. (الدر المختار مع الرد، کتاب الذبائح)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4316 :