سوال:السلام علیکم !
درج ذیل مسئلہ میں شریعت ِا سلامیہ کی رہنمائی درکار ہے۔
کیا رضاعی بہن یا بھائی کی اولاد سے نکاح ہو سکتا ہے ؟مزید یہ کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم ﷺ کے ایک نسبت سے رضاعی بھائی تھے اور ان کی بیٹی حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہاسےآپ ﷺ کا جو نکاح ہوا تھا تو یہ بھی رضائی بھائی کی اولاد سے نکاح کی ایک مثال ہے۔ براہ کرم مذکورہ دونوں صورتوں کے حوالے سے رہنمائی فرمادیجئے۔ جزاک اللہ خیرا
الجواب باسم ملهم الصواب
جو رشتے نسب كى وجہ سے حرام ہوتے ہىں رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوتے ہىں،لہذا رضاعی بھائی یا رضاعی بہن یا ان سے ہونے والی اولاد سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا كے والدحضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ جن كا نام صخر بن حرب ہے ان كانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے كوئى رضاعی تعلق نہىں تھا ، لہذا حضرت ام حبىبہ رضى اللہ عنہا كا نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہونا صحىح ہے۔البتہ ابو سفىا ن كى كنىت سے مشہور اىك اور صحابى بھى ہىں جن كا نام مغىرہ بن حارث بن عبد المطلب ہے اور ىہ نبى اكرم صلى اللہ علىہ وسلم كے چچا زاد بھائى اوررضاعى بھائى بھى ہىں،جنہىں حضرت حلىمہ سعدىہ رضى اللہ عنہا نے دو دھ پلاىا،لہذا دونوں حضرات كى كنىت اىك ہونے كى وجہ سےسائل كو شبہ ہوا كہ رضاعى بھتىجى سے نكاح ہوا ،مسئلہ واضح ہونے كے بعد امىد ہے كہ كوئى اشكال باقى نہىں رہے گا۔
رملة بنت أبي سفيان، واسمه صخر بن حرب ابن أمية القرشية الأُمَوِية أم حبيبة، زوج النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم. (تهذيب الكمال في أسماء الرجال (۳۵/۱۷۵)
أبو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمي ابن عمّ رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم وأخوه من الرضاعة، أرضعتهما حليمة السعدية. قال ابن المبارك، وإبراهيم بن المنذر، وغيرهما: اسمه المغيرة.( الإصابة في تمييز الصحابة (۷/۱۵۱)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4546 :