ان شاءالله رمضان کی آمد آمد ہے، اور الله کی توفیق سے ہی اس ماہ مبارک میں ہر عام و خاص زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں حصہ لینا چاہتا ہے، ان ہی کاموں میں ایک کام رشتہ داروں اور دوست احباب کو افطار کروانا ہے، کچھ افراد کی رائے ہے کہ یہ افطار کا اہتمام اور دوسروں کا اُنہیں افطار کروانا ان کی اپنی عبادات کے لیئے مضر ہے، اس اہتمام میں رشتہ دار خواتین بھی جمع ہوتی ہیں اور حالتِ روزہ میں غیبت کا دور دورہ بھی ہوتا ہے، پھر افطار سے چند لمحات پہلے جو دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے وہ بھی غیر ضروری باتوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ کُل ملا کر اِن افراد کے نزدیک نہ کسی کو افطار پر بلایا جائے اور نہ ہی خود کسی کی دعوت افطار قبول کی جائے تاکہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کمایا جا سکے۔ اس بارے میں تعلیمات رسولﷺ ارشاد فرما دیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
غيبت اور خاص کر غير ضروری باتوں کا ارتکاب تقریبا تمام ہی دعوتوں میں بالعموم ہوتا ہے اور ان کا ارتکاب روزہ اور بغیر روزہ دونوں ہی حالتوں میں شرعاّ مضر ہے، اللہ تعالیٰ اصلاحِ احوال کی توفیق عطاء فرمائے۔ سوال میں ذکر کردہ نکتے کی بناء پر تو عام دعوتیں بھی منع ہونی چاہیے حتی کہ ولیمہ بھی منع ہونا چاہیے۔ اگر کہیں کہ ولیمہ سنت ہے تو روزہ دار کو افطار کروانا بھی تو عبادت ہے۔باقی دعوت میں آئے مہمانوں کو غیبت وغیرہ سے بچانے کے لیے بہترین طریقۂ کار یہ ہے کسی عالمِ دین کا وعظ کروادیا جائے تاکہ افطار سے پہلے کا وقت قرآنِ کریم کے درس اور دعا میں ہی صرف ہو۔
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا. (سنن الترمذي، أبواب الصوم عن رسول الله صلی الله عليه وسلم، باب ما جاء في فضل من فطر صائما) ترجمہ:’’جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا اسے بھی روزے کا مکمل ثواب ملے گا اور روزہ دار کے روزے کا اجر کم بھی نہ ہوگا‘‘۔
اس لیے تلبیس ابلیس (شیطان کے روحانی پھندوں) کا شکار ہو کر انفاق فی سبیل اللہ میں کمی نہ کریں۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3754 :