کچھ عرصہ قبل ایک سوال پوچھا تھا کہ اگر کسی خاتون کو طواف زیارت سے پہلے حیض آنا شروع ہوجائے اور اسی حالت میں اسے واپس آنا پڑجائےتو وہ شوہر کےلیے حلال ہوگی یا نہیں؟ تو جواب میں یہ بات ذکر کی گئی تھی کہ اگر طواف زیارت کیا ہی نہیں اور خاتون اپنے ملک واپس آگئی تو ایسی صورت میں وہ اپنے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی اور اس پر لازم ہے کہ اسی احرام سے مکہ مکرمہ جا کر طواف زیارت کرے اور اس تاخیر پر ایک دم (چھوٹا جانور یا بڑے جانور کا ایک حصہ ) دے از خود طواف زیارت کیے بغیر وہ کبھی بھی اپنے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی اور اگر موت تک طواف زیارت کرنے کا موقع نہ ملے تو اپنے مال سے ایک گائے یا اونٹ کی قربانی کی وصیت کرنا واجب ہو گا۔طواف زیارت کیے بغیر حلال نہ ہونا کئی احادیث سے ثابت ہے نیز اس پر علماء کا اجماع بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس عورت کے اپنے شوہر سےپانچ چھ بچے ہوچکے ہیں اور اس واقعہ کو بھی دس سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے تو اب اس کی اولاد کا کیا حکم ہوگا؟ مزید یہ کہ اسی طرح اگر کسی مرد کو طواف زیارت کے بغیر آنا پڑجائے تو کیا وہ بیوی کےلیے حلال ہوگا؟
الجواب باسم ملهم الصواب
جو عورت حیض و نفاس کے عذر کی وجہ سے بغیر طواف کئے واپس اپنے وطن آجائے وہ اپنے شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوتی جبتک وہ دوبارہ مکہ مکرمہ جا کرطواف زیارت نہ کر لے طواف زیارت کرنے سے پہلے ہمبستری کرنے کی صورت مین ایک بڑے جانور کی قربانی لازم ہوتی ہے لیکن اگر عورت اپنے آپ کو حلال سمجھ کر احرام ختم کرنے کی نیت کر لے تو اس صورت میں جتنی بار بھی اپنے شوہر سے ہمبستری کرے اس پرصرف ایک دم یعنی ایک چھوٹا جانور یا بڑے جانور کا ایک حصے کی قربانی لازم ہوتی ہے
لہذا صورت مسئولہ میں اگر عورت نے احرام ختم کرنے کی نیت کر کے اپنے آپ کو حلال سمجھا اور اپنے وطن واپس آگئی تو اس کے بعد شوہر نے جتنی بار بھی ہمبستری کی اس پر توبہ کرے البتہ عورت پر صرف ایک دم لازم ہوگا۔
البتہ اولاد ثابت النسب ہے، کیونکہ طواف زیارت کئے بغیر ہمبستری گناہ ہے، پر اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ مذکورہ حکم مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔
(الف) (وبترك أكثره بقي محرما) أبدا في حق النساء (حتی يطوف) فكلما جامع لزمه دم إذا تعدد المجلس إلا أن يقصد الرفض فتح (الدر المختار، كتاب الحج)
(ب) (قوله إلا أن يقصد الرفض) أي فلا يلزمه بالثاني شيء وإن تعدد المجلس مع أن نية الرفض باطلة لأنه لا يخرج عنه إلا بالأعمال، لكن لما كانت المحظورات مستندة إلی قصد واحد وهو تعجيل الإحلال كانت متحدة فكفاه دم واحد بحر. قال في اللباب: واعلم أن المحرم إذا نوی رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه. اهـ. قلت: وما ذكر من أن نية الرفض باطلة وأنه لا يخرج من الإحرام إلا بالأفعال محمول علی ما إذا لم يكن مأمورا بالرفض كما سنذكره آخر الجنايات، ومن المأمور بالرفض المحصر بمرض أو عدو لأنه بذبح الهدي يحل ويرتفض إحرامه علی ما سيأتي في بابه وسنذكر هناك أيضا أن كل من منع عن المضي في موجب الإحرام لحق العبد فإنه يتحلل بغير الهدي كالمرأة والعبد لو أحرما بلا إذن الزوج والمولی، فإن لهما أن يحللاهما في الحال بلا ذبح. وبما قررناه اندفع ما في الشرنبلالية حيث زعم المنافاة بين ما مر من أنه لا يخرج عن الإحرام إلا بالأفعال وبين مسألة تحليل المولی أمته بنحو قص ظفر أو جماع.(رد المحتار ، كتاب الحج)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4370 :