میری ساس کا انتقال ہوا تو سب سامان بہن بھائیوں نے باہمی مشاورت سے بانٹ لیا تھا۔ کچھ برتن یہ کہہ کر میرے گھر رکھوادیے کہ کبھی کسی کے گھر میں دعوت یا کسی ضرورت کے وقت کوئی کمی ہو تو وہ یہ برتن منگواکر استعمال کرلیں گے، مگر ڈھائی سال میں کچھ خاص کام نہیں آئے بلکہ میں ان برتنوں کی حفاظت کی ذمہ داری سے تھک گئی ہوں، دوسرا یہ کہ یہ برتن میرے گھر میں ہیں لیکن نہ میں اس کی مالک ہوں نہ میرے شوہر۔ ساس کے ساتھ میں رہتی تھی اور یہ چیزیں میرے استعمال میں تھیں اور مجھے اب بھی ا ن کی ضرورت ہے کیوں کہ میرے شوہر کی جاب بھی نہیں ہے۔ اب جبکہ کسی اورکو ان کی ضرورت بھی نہیں ہے اور میں بھی یہ مسئلہ اٹھانا نہیں چاہتی کہ ان کو بانٹ لیا جائے تو ایسی صورت میں میں کیا کروں؟ میرے شوہر کہتے ہیں کہ تم انہیں استعمال کرلو لیکن یہ بات میرے دل کو نہیں لگتی، اور کیا سب کو سامان دے کر بٹوارہ کردوں یا شوہر کی بات مان لوں کہ وہ بھی تو اولاد ہی ہیں۔برائے مہربانی میرے مسئلے کا حل بتا دیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
میت کی ملکیت میں موجود تمام اشیاء ترکہ کہلاتی ہیں اور اس کی شرعی تقسیم ضروری ہے۔
لہذا جو برتن آپ کے پاس موجود ہیں وہ آپ کی ملکیت نہیں نہ ہی آپ اپنی ساس کی وارث ہیں۔ اس لئے ان برتنوں کا استعمال آپ کے لئے جائز نہیں ان برتنوں کو بھی شرعی ضابطے کے مطابق تقسیم کر لیا جائے اور پھر جس وارث کے حصے میں یہ برتن آئیں وہ اپنی خوشی سے یہ برتن آپ کو دے دے تو پھر آپ کے لئے ان کا استعمال جائز ہو گا۔
(ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته) أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة كقوله – عليه الصلاة والسلام – «أطعموا الجدات بالسدس» أو الإجماع فجعل الجد كالأب وابن الابن كالابن(ويستحق الإرث) ولو لمصحف به يفتی وقيل لا يورث وإنما هو للقارئ من ولديه صيرفية بأحد ثلاثة (برحم ونكاح) صحيح فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا (وولاء). (الدر المختار، كتاب الفرائض)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4398 :