لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

کیا پانی پر یا کسی کھانے کی چیز پر پھونک کر پینا، پلانا یا کھانا،کھلانا شرعی طور پر درست ہے؟ علماء اکثر پانی پھونک کر مرض کی شفاء کے لیے مریض کو دیتے ہیں؟ ایک صاحب ابو داؤد کی کسی حدیث کا حوالہ دے رہے تھےکہ یہ غلط ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ برائے مہربانی حوالہ کے ساتھ وضاحت فرمادیں۔ 

الجواب باسم ملهم الصواب

1۔ پانی یا کھانے کی کسی چیز میں اللہ کا نام یا کوئی قرآنی آیت پڑھ کر دم کرنا جائز ہے احادیث صحیحہ صریحہ سے دم کا ثبوت بے غبار ہے البتہ تعویذ کی مندرجہ ذیل صورتیں ناجائز ہیں :

1۔ ٹوٹکا، جو پیتل ، تانبے یا لوہے وغیرہ کے ٹکڑے کو باندھ کر کیا جاتا ہے۔

2۔ایسا تعویذ جس میں اسماء اللہ تعالی ، آیات قرآنیہ، اور ادعیہ ماثورہ نہ ہوں بلکہ کلمات شرکیہ ہوں۔

3۔ تعویذ کو موثر بالذات سمجھا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا اور اب بھی بعض جہال یونہی سمجھتے ہیں۔ یہ صورتیں بلا شبہ ناجائز حرام اور شرک ہیں دم یا تعویذ میں اسماء اللہ تعالی، آیات قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ ہوں تو یہ جائز اور ثابت ہے۔

2۔ سوال میں ذکر کردہ روایت ابو داود شریف میں موجود ہے :

عن ابن عباس، قال: نهی رسول الله – صلی الله عليه وسلم – أن يتنفس في الإناء أو ينفخ فيه (سنن ابي داود،كتاب الاشربة، باب في النفخ في الشراب والتنفس فيه)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس بت سے کہ برتن میں سانس لیا جائے یا اس میں پھونکا جائے۔

اس ممانعت کیا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیز کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یا اس میں کسی گری ہوئی چیز کو ہٹانے کے لئے اس میں پھونک مارنا مکروہ اور خلاف ادب ہے۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں وارد ممانعت کا یہی مفہوم ہے۔

(وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: نَهَی رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنْ يُتَنَفَّسَ) : بِضَمِّ أَوَّلِهِ (فِي الْإِنَاءِ) : قَالَ ابْنُ الْمَلَكِ تَبَعًا لِمَا فِي شَرْحِ السُّنَّةِ: أَيْ لِخَوْفِ بُرُوزِ شَيْءٍ مِنْ رِيقِهِ فَيَقَعُ فِي الْمَاءِ، وَقَدْ يَكُونُ مُتَغَيِّرَ الْفَمِ فَتَعْلَقُ الرَّائِحَةُ بِالْمَاءِ لِرِقَّتِهِ وَلَطَافَتِهِ ; وَلِأَنَّ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِ الدَّوَابِ إِذَا كَرَعَتْ فِي الْأَوَانِي جَرَعَتْ، تَمَّ تَنَفَّسَتْ فِيهَا، وَعَادَتْ فَشَرِبَتْ، فَالْأَوْلَی – وَعِبَارَةُ شَرْحِ السُّنَّةِ:فَالْأَحْسَنُ – أَنْ يَتَنَفَّسَ بَعْدَ إِبَانَةِ الْإِنَاءِ عَنْ فَمِهِ اهـ. وَلَا يَخْفَی أَنَّ التَّعْبِيرَ بِالْأَحْسَنِ وَالْأَوْلَی خِلَافُ الْأُولَی. (أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ) : أَيْ عَلَی صِيغَةالْمَجْهُولِ أَيْضًا. قِيلَ: إِنْ كَانَ النَّفْخُ لِلْبَرْدِ فَلْيَصْبِرْ، وَإِنْ كَانَ لِلْقَذَی فَلْيُمِطْهُ بِخِلَالٍ وَنَحْوِهِ، لَا بِالْإِصْبَعِ ; لِأَنَّهُ يَنْفُرُ الطَّبْعُ مِنْهُ أَوْ لِيُرِقَ الْمَاءَ۔ (مرقاة المفاتیح،كتاب الاطعمة،باب الاشربة)

(الف) (أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً) : أَيْ: أَخَذْتُهَا عَلَاقَةً، وَالْمُرَادُ مِنَ التَّمِيمَةِ مَا كَانَ مِنْ تَمَائِمِ الْجَاهِلِيَّةِ وَرُقَاهَا، فَإِنَّ الْقِسْمَ الَّذِي اخْتَصَّ بِأَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَی وَكَلِمَاتِهِ غَيْرُ دَاخِلٍ فِي جُمْلَتِهِ، بَلْ هُوَ مُسْتَحَبٌّ مَرْجُوُّ الْبَرَكَةِ عُرِفَ ذَلِكَ مِنْ أَصْلِ السُّنَّةِ، وَقِيلَ: يُمْنَعُ إِذَا كَانَ هُنَاكَ نَوْعُ قَدْحٍ فِي التَّوَكُّلِ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، كِتَابُ الطِّبِّ وَالرُّقَی)

(ب) (وَعَقْدَ التَّمَائِمِ) : جَمْعُ تَمِيمَةٍ، وَالْمُرَادُ بِهَا التَّعَاوِيذُ الَّتِي تَحْتَوِي عَلَی رُقَی الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ أَسْمَاءِ الشَّيَاطِينِ وَأَلْفَاظٍ لَا يُعْرَفُ. مَعْنَاهَا، وَقِيلَ: التَّمَائِمُ خَرَزَاتٌ كَانَتِ الْعَرَبُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُعَلِّقُهَا عَلَی أَوْلَادِهِمْ يَتَّقُونَ بِهَا الْعَيْنَ فِي زَعْمِهِمْ، فَأَبْطَلَهُ الْإِسْلَامُ لِأَنَّهُ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَدْفَعُ إِلَّا اللَّهُ تَعَالَی (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،كتاب اللباس، بَابُ الْخَاتَمِ)

(ج) ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالی، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدری ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به. (رد المحتار،کتاب الحظر والاباحة ، فصل فی اللبس)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4161 :

لرننگ پورٹل