ایک ویڈیو بیان موصول ہوا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’مزارعت فقہ حنفی، امام ابوحنیفہ، امام شافعی وغیرہم رحمہم اللہ کے نزدیک حرام مطلق ہے، جس کی زمین ہے وہی کاشت کرے یا پھر زمین کسی دوسرے مسلمان بھائی کے حوالے کردے اور پھر اس سے کچھ نہ لے، متعدد احادیث میں یہ بات آئی ہے ۔ زمین میں مضاربت ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ اس کے بارے میں بتائیے کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
امام ابو حنیفہؒ مزارت کے عدم جواز کے قائل ہیں اور امام شافعی ومالک رحمہما اللہ تنہا مزارعت کے معاملے کو ناجائز کہتے ہیں، لیکن باغات کے ضمن میں وہ بھی جواز کے قائل ہیں۔ نیز امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہمااللہ تعالی،امام احمد اسحاق بن راہویہ اور دیگر ائمہ مزارعت کے جواز کے قائل ہیں اور بہت سی احادیث اور آثار صحابہ سے مزارعت کا جواز ثابت ہوتا ہے اسی وجه سے احناف كا مفتی به قول مزارعت كے جائز هونے كا هی هے۔عدم جواز کے قائلین کا موقف درج ذیل بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے:
حدیث شریف میں ہے۔ عن جابر، «أن النبی صلی الله علیه وسلم نهی عن المخابرة». (مسلم، كتاب البیوع، باب كراء الارض) ترجمه:’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت سے منع فرمایا‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:عن جابر بن عبد الله قال: سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: "من لم یذر المخابرة فلیؤذن بحرب من الله ورسوله". (السنن الكبری للبیهقی،كتاب المزارعه، باب ما جاء فی النهی عن المخابرة والمزارعة) ترجمہ:’’ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا جس نے مزارعت کو نہ چھوڑا وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے‘‘۔
جواز کے قائلین ائمہ کے دلائل درج ذیل ہیں:
بخاری شریف میں ہے: عن أبی جعفر، قال: «ما بالمدینة أهل بیت هجرة إلا یزرعون علی الثلث والربع» وزارع علی، وسعد بن مالك، وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزیز، والقاسم، وعروة، وآل أبی بكر، وآل عمر، وآل علی، وابن سیرین وقال عبد الرحمن بن الأسود: «كنت أشارك عبد الرحمن بن یزید فی الزرع» وعامل عمر، «الناس علی إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر، وإن جاءوا بالبذر فلهم كذا» وقال الحسن: «لا بأس أن تكون الأرض لأحدهما، فینفقان جمیعا، فما خرج فهو بینهما». (صحیح البخاری، كتاب المزارعة، باب المزارعة بالشطر ونحوه) ترجمه:’’حضرت ابو جعفر سے مروی ہے فرمایا: مدینہ میں ہجرت کرنے والوں کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جو ثلث یا ربع کی شرط پر مزارعت نہ کرتا ہو حضرت علی ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن مسعود عمر بن عبد العزیز ، عروہ اور حضرت ابو بکر و عمر و علی رضی اللہ عنہم کی اولادوں نے مزارعت كا معاملہ کیا اور عبد الرحمن بن اسود فرماتے ہیں کہ میں عبد الرحمن بن یزید کے ساتھ کھیتی باڑی کے معاملے میں شریک تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا کہ اگر بیج عمر کا ہو تو ان کے لئے آدھا اور اگر بیج دوسرے لوگوں کا ہو تو ان کے لئے اتنا اتنا .حسن فرماتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ زمین کسی ایک کی ہو پس دونوں اس میں خرچ کریں جو حاصل ہو وہ ان کے درمیان تقسیم ہو جائے‘‘۔
لہذا معلوم ہوا کہ مزارعت جلیل القدر صحابہ و تابعین کے ہاں جائز تھی اور جن روایات میں نہی وارد ہوئی ہے اس كی توجیه اس طرح کی گئی ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس معاملہ میں کافی جھگڑے آنے لگے تھے اس لئے منع فرمایا ، یا پھر لوگ کھیتی باڑی میں لگ کر جھاد سے نہ رک جائیں اس لئے منع فرمایا۔
ان النهی كان محمولا عنده علی التنزیه ترغیبا فی مكارم الاخلاق…منها انهم كانوا یتنازعون فی كراء الارض حتی افضی لهم التقاتل…منها انه كره لهم الافتتان بالحراثة والحرص عیلها والتفرغ لها فیقعدهم عن الجهاد فی سبیل الله.(المواهب اللطیفة شرح مسند الامام ابی حنیفة، المجلد الخامس، كتاب المزارعة)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4225 :