سورة القلم كي پہلی آيت هے: «ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ» اس كي تفسير ميں کہا گیا ہے کہ یہاں «ن» سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ اس نے کہا کیا لکھوں؟ فرمایا تقدیر لکھ ڈال پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ابن ابی حاتم) مطلب یہ ہے کہ یہاں "ن" سے مراد یہ مچھلی ہے، طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں؟ حکم ہوا ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے، ابن عساکر کی حدیث میں ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا لکھ اس نے پوچھا کیا ؟ فرمایا جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے عمل، رزق عمر، موت وغیرہ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا۔ اس آیت میں یہی مراد ہے، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا، مجاہد فرماتے ہیں یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے، بغوی وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے، واللہ اعلم
تفسیر الطبری ج ٢٣ ص ٥٢٤ میں ہے: حدثنا واصل بن عبد الأعلی، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجری القلم بما هو كائن من ذلك إلی قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض علی ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر علی الأرض(تفسير الطبري) ترجمہ:’’ أبي ظبيان ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں سب سے پہلی چیز جو الله نے خلق کی وہ قلم ہے پس اس کو حکم دیا لکھ – قلم نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ پس قلم لکھنا شروع ہوا جو بھی ہو گا قیامت تک ، پھر اس کی سیاہی کے بخارات آڑ گئے جس سے آسمان بن گئے پھر النون کو تخلیق کیا جس پر زمین کو پھیلا دیا پھر النون پھڑکی جس سے زمین ڈگمگائی پس پہاڑ جما دیے‘‘۔
سوره القلم کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں: وَقَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَهُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كَانَ يُقَالُ النُّونُ الْحُوتُ الْعَظِيمُ الذي تحت الأرض السابعة، وقد ذكر الْبَغَوِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ إِنَّ عَلَی ظَهْرِ هذا الحوت صخرة سمكها كغلظ السموات وَالْأَرْضِ، وَعَلَی ظَهْرِهَا ثَوْرٌ لَهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ قَرْنٍ وَعَلَی مَتْنِهِ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِيهِنَّ وما بينهن، والله أَعْلَمُ.(ابن کثیر) ترجمہ:’’ اور ابن أَبِي نَجِيحٍ نے کہا کہ ان کو ابراہیم بن بکر نے خبر دی کہ مجاہد نے کہا وہ (لوگ) کہا کرتے النون ایک عظیم مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور البغوی نے ذکر کیا اور مفسرین کی ایک جماعت نے کہ اس مچھلی کے پیچھے چٹان ہے جیسے زمین و آسمان ہیں اور اس کے پیچھے بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں‘‘۔
سوال يه هے كه كيا مچھلی والی بات درست اور حدیث سے ثابت ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
مذکورہ روایات مرفوع احادیث نہیں بلکہ ان کی سند کسی نہ کسی تابعی یا صحابی پر موقوف ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس مضمون کی تمام روایات کو اسرائیلیات میں سے کہا ہے۔ کعب احبار جن کا شمار علمائے اہل کتاب میں ہوتا تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایمان لے آئے تھے اور وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل کتاب کے علوم وغیرہ بیان فرمایا کرتے تھے، جسے عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کی دلجمعی اور تعجب کی بناء پر سن لیا کرتے تھے کیونکہ ان میں سے کئی ایک باتیں اسلام کے موافق بھی ہوتی تھیں۔ لیکن لوگو ں نے ان باتوں کو آگے بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا کیونکہ فرمان رسول اللہ ﷺ میں اس کی اجازت بھی دی گئی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ تنبیہ بھی موجود ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات کی نہ ہم تکذیب کرتے ہیں اور نہ تصدیق کرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سی چیزیں انتہائی غلط سلط بیان کی گئی ہیں۔ اس لیے سوال میں مذکورہ روایات اسرائیلیات کا حصہ ہیں، اور اسرائيليات كا حكم یہ ہے کہ نہ ان کی تکذیب کی جائے گی اور نہ ہی تصدیق کی جائے گی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وقال أبو هريرة عن النبي – صلی الله عليه وسلم -: "لا تُصَدقوا أهلَ الكِتابِ، ولا تُكذبوهُم، و {قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ} الآية". (صحيح البخاري، كتاب الشهادات، باب لا يسأل أهل الشرك ، عن الشهادة وغيرها) ترجمہ:’’ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل فرمایا کہ اہل کتاب کی باتوں کی نہ تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب کرو بلکہ یہ کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو کچھ نازل کیا گیا (تمام انبیاء پر۔ آپ ﷺ نے مکمل آیت کی تلاوت فرمائی)‘‘۔
قال ابن كثير رحمه الله: هذا الإسناد يذكر به السدي أشياء كثيرة فيها غرابة وكان كثير منها متلقی من الإسرائيليات. فإن كعب الأحبار لما أسلم في زمن عمر كان يتحدث بين يدي عمر بن الخطاب رضي الله عنه بأشياء من علوم أهل الكتاب فيستمع له عمر تأليفا له، وتعجبا مما عنده مما يوافق كثير منه الحق الذي ورد به الشرع المطهر فاستجاز كثير من الناس نقل ما يورده كعب الأحبار لهذا، ولما جاء من الإذن في التحديث عن بني إسرائيل لكن كثيرا ما يقع مما يرويه غلط كبير وخطأكثير. (البداية والنهاية، المجلد الاول، فصل فيما ورد في صفة خلق العرش والكرسي)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4233 :