لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

لوگ ہمارے مخلوط محافل میں نہ جانے پر بہت سوال کرتے ہیں۔یہ بتادیں کہ اس کے بارے میں کوئی حدیث ہے؟ کیا مخلوط محفل میں جانا کبیرہ گناہ میں شامل ہے؟ کیا نہ جانے پر علماء نے اجتہاد کے ذریعے یہ بات طے کی ہےیا کوئی اور دلیل بھی ہے؟ لوگ ہمارے اسپتالوں اور دیگر ضروری جگہوں پر جانے پر بھی اعتراض اٹھاتے ہیں کہ وہاں کس حیثیت سے جاتے ہو تم لوگ؟ کیا حقوق العباد کے نام پر ایسی جگہ پردے میں جا سکتے ہیں؟ اور کیا ناجائز اور حرام برابر ہیں؟

الجواب باسم ملهم الصواب

بلا ضرورت شدیدہ مردوں و عورتوں کا مخلوط اجتماع نا جائز ہے، کیوں کہ اس سے فتنے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اس اختلاط سے منع فرمایا ہے۔

بخاری شریف میں ہے:عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ:"إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ".(بخاری، کتاب النكاح، بابٌ لا يَخْلُوَنَّ رجُلٌ بامْرَأةٍ إِلَّا ذُو مَحْرَم، والدُّخولُ عَلَی المُغِيبَةِ) ترجمہ:’’حضرت عقبه بن عامر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے پاس جانے سے بچو ایک انصاری صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ عورت کے لیے سسرالی رشتے دار دیور، جیٹھ وغیرہ کے بارے میں کیا حکم ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو موت ہیں(یعنی سسرالی رشتے داروں سے پردہ نہ کرنا موت کی طرح خطرناک ہے)‘‘۔

حدیث شریف میں ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ – صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَخْطُبُ: "أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، ولا تسافر إِلَّا وَمَعَهَاذُومَحْرَمٍ(صحيح ابن خزيمة، كتاب المناسك، باب ذكر خروج المرأة لأداء فرض الحج بغير محرم…) ترجمہ:’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا خبردار کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے اور کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے‘‘۔

مسند احمد میں ہے:وَلا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ (مسند احمد، مسند العشرة المبشرين بالجنة، مسند الخلفاء الراشدين، أول مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه) ترجمہ:’’رسول اللہﷺ نے فرمایا : کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت کا بلا ضرورت تنہائی اختیار کرنا یا کسی بڑے مجمے میں دونوں کا ساتھ جمع ہونا جائز نہیں کیونکہ وہاں شیطان اپنا کام کرتا ہے اور فتنے میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے لیکن اگر ہسپتال یا کسی اور جگہ پر جہاں جانے کی ضرورت ہو،عورت پردے کے ساتھ جائے تو شرعاً اس کی اجازت ہے ضرورت کے تحت کئے جانے والے کاموں کا حکم عام حالات میں کئے جانے والے عمل سے مختلف ہوتا ہے ۔اس لیے اس ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں۔

فأما حالة الضرورة فالضرورات تبيح المحظورات، ألا تری أن الله أباح شرب الخمر وأكل الميتة ولحم الخنزير ومال الغير حالة المخمصة وما إذا غص، وهذا لأن أحوال الضرورات مستثناة، قال تعالی: {وما جعل عليكم في الدين من حرج} ، وقال: {لا تكلف نفس إلا وسعها} ؛ وفي اعتبار حالة الضرورة حرج وتكليف ما ليس في الوسع، ولأن هذه الأفعال مأمور بها، فعند بعضهم هي واجبة، وعند البعض سنة مؤكدة، ولا يمكن فعلها إلا بالنظر إلی محالها، فكان الأمر بها أمرا بالنظر إلی محالها ويلزم منه الإباحة ضرورة.وينبغي للطبيب أن يعلم امرأة مداواتها، لأن نظر المرأة إلی المرأة أخف من نظر الرجل إليها لأنها أبعد من الفتنة، فإذا لم يكن منه بد فليغض بصره ما استطاع تحرزا عن النظر بقدر الإمكان، وكذلك تفعل المرأة عند النظر إلی الفرج عند الولادة وتعرف البكارة، ألا يری أنه يجوز النظر إليه لتحمل الشهادة علی الزنا ولا ضرورة فهذا أولی، والعورة في الركبة أخف فكاشفها ينكر عليه برفق، ثم الفخذ وكاشفه يعنف علی ذلك؛ ثم السوأة فيؤدب كاشفها.(الاختيار لتعليل المختار، كتاب الكراهية،فصل النظر إلی العورة)

ناجائز اور حرام اس اعتبار سے تو ایک ہی ہیں کہ دونوں کا کرنا ممنوع ہے لیکن حکم کے اعتبار سے تھوڑا فرق ہے کسی قطعی حرام کام کو جائز سمجھنا کفر تک لے جاتا ہے لیکن حرام سے کم درجے کا کام مثلا مکروہ کو جائز سمجھنا کفر تک نہیں لے جاتا ۔تاہم دونوں سے پرہیز کیا جائے گا۔

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4238 :

لرننگ پورٹل