بعض مقررین یہ بیان کرتے ہیں کہ جانتے بوجھتے کسی ایک کبیرہ گناہ کے مسلسل ارتکاب سے کوئی مسلمان خلود فی النار کا مستحق ہو جاتا ہے اور اس کے لیے وہ سورۃ البقرہ کی آیت «بلی من کسب… » کا حوالہ دیتے ہیں ازراہ کرم مذکورہ آیت کی تفسیر کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں شرعی راہ نمائی فرمائیں ۔
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر مرتکب کبیرہ بغیر توبہ کے مرجائے تو اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسے شخص کو عذاب دیا جائے گا، لیکن اگر اس کا کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کو پسند آجائے تو اس کی برکت سے گناہوں کو معاف بھی فرمادیں گے۔ جہنم کا دائمی عذاب کافروں کے ساتھ خاص ہے اور جس مسلمان کی موت ایمان کی حالت میں ہو، اس کے لیے جہنم کا دائمی عذاب نہیں ہے۔
«اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآء …..» (النساء: 116) ترجمہ:’’ بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کردیتا ہے‘‘۔
سورہ بقرہ کی آیت کی تفسیر میں علامہ فخر الدین رازی فرماتے ہیں: واعلم أن هذه المسألة من معظمات المسائل، ولنذكرها هاهنا فنقول: اختلف أهل القبلة في وعيد أصحاب الكبائر، فمن الناس من قطع بوعيدهم وهم فريقان، منهم من أثبت الوعيد المؤبد وهو قول جمهور المعتزلة والخوارج. ومنهم من أثبت وعيدا منقطعا وهو قول بشر المريسي/ والخالد، ومن الناس من قطع بأنه لا وعيد لهم وهو قول شاذ ينسب إلى مقاتل بن سليمان المفسر، والقول الثالث: أنا نقطع بأنه سبحانه وتعالى يعفو عن بعض المعاصي ولكنا نتوقف في حق كل أحد على التعيين أنه هل يعفو عنه أم لا، ونقطع بأنه تعالى إذا عذب أحدا منهم مدة فإنه لا يعذبه أبدا، بل يقطع عذابه، وهذا قول أكثر الصحابة والتابعين وأهل السنة والجماعة وأكثر الإمامية (التفسير الكبير، البقرة:81) ترجمه: ’’یہ مسئلہ بڑے مسائل میں سے ہے اہل قبلہ کا مرتکبین کبائر کے بارے میں اختلاف ہے بعض لوگ یقینی طور پر وعید کے قائل ہیں ان کے دو فریق ہیں ایک فریق ہمیشہ کی وعید کو ثابت کرتا ہے یہ جمہور معتزلہ کا قول ہے اور ایک فریق غیر دائمی وعید ثابت کرتا ہے یہ بشر مریسی کا قول ہے اور بعض لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اہل کبائر کے لئے کوئی وعید ہی نہیں لیکن یہ شاذ قول ہے تیسرا قول یہ ہے کہ ہم قطعی طور پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی بعض معاصی کو معاف فرما دیتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اگر اہل کبائر میں سے کسی کو عذاب دیتے ہیں تو اس کو ہمیشہ کا عذاب نہیں دیتے بلکہ اس کے عذاب کو ختم کر دیتے ہیں یہ اکثر صحابہ اور اہل السنہ والجماعہ کا قول ہے‘‘۔
اسي طرح ابن عباس رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ سیئہ اور خطیئہ سے مراد شرک ہے اور احاطہ سے مراد یہ ہے کہ شرک پر ہی موت آ جائے اور توبہ کی توفیق نہ ہو۔ لہذا جب خطیئہ سے مراد شرک ہے تو خلود فی النار میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔
مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً، يَعْنِي: الشِّرْكَ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ، قَرَأَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ خَطِيئَاتُهُ» بِالْجَمْعِ، وَالْإِحَاطَةُ: الْإِحْدَاقُ بِالشَّيْءِ مِنْ جَمِيعِ نَوَاحِيهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَعَطَاءٌ وَالضَّحَّاكُ وَأَبُو الْعَالِيَةِ والربيع وجماعة: هو الشِّرْكُ يَمُوتُ عَلَيْهِ، وَقِيلَ: السَّيِّئَةُ الْكَبِيرَةُ وَالْإِحَاطَةُ بِهِ أَنْ يُصِرَّ عَلَيْهَا فَيَمُوتُ غَيْرَ تَائِبٍ، قَالَهُ عكرمة والربيع بن خيثم.(تفسير البغوي، البقرة: 81)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے:عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَانِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، قَالَ يَزِيدُ: فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا ، قَالَ جَابِرٌ: اقْرَأْ مَا قَبْلَهَا: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ، إِنَّمَا هِيَ فِي الْكُفَّارِ (مسند أبي حنيفة، باب الياء، روايته عن يزيد بن صهيب الفقيه) ترجمه: ’’حضرت جابر رضي الله عنه نبي كريم ﷺ سے روايت كرتے هيں فرمایا اللہ تعالی اہل ایمان میں سے ایک قوم کو نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نکالیں گے یزید نے کہا: میں نے کہا اللہ تعالٰی نے تو فرمایا ہے کہ وہ لوگ جہنم سے نہیں نکلیں گے ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس آیت کا پچھلا حصہ پڑھو «ان الذين کفروا» یہ حکم کفار کا ہے ‘‘۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4244 :