لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

زید نے دو شادیاں کیں۔ دوسری شادی کرتے وقت پہلی بیوی سے جو درج ذیل معاہدہ کیا تھا اس میں یہ بات بھی طے ہوئی تھی کہ ہفتے میں پانچ دن پہلی بیوی کے ساتھ رہوں گا اور دو دن دوسری بیوی کے ساتھ۔ اس پر شوہر اور دونوں بیویوں کی رضامندی بھی ہوئی تھی اور نکاح کے موقع پر بھی یہ معاہدہ پیش کیا گیا تھا۔ اب اس معاہدے کی رو سے بتائیں کیا شرعاً زیدپر اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہےیا یہ کہ اب دونوں بیویوں کے درمیان برابری کی جاسکتی ہے؟ معاہدہ نامہ درج ذیل ہے: 

1. ایک سال تک میں پہلی بیوی کو اس کا فلیٹ دے دوں گا۔ 

2. میں بالکل نہیں بدلوں گا اور غصہ نہیں کروں گا۔

3. میں پانچ دن پہلی بیوی ساتھ اور دو دن دوسری کے ساتھ رہوں گا۔

4. دو ماہ رات آٹھ بجے تک میں دوسری بیوی کے ساتھ رہوں گا۔ 

5. یہ سب میں پہلی بیوی کے سامنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر تحریر کر رہاہوں۔ 

6. پہلی بیوی کا جیسا مزاج ہوگا زید اسے برداشت کریں گے۔ یہ بات مستقل بنیادوں پر ہوگی۔ 

7. ان سب شرائط پر ہم دونوں یعنی زید اور پہلی بیوی راضی ہیں اور دوسری بیوی بھی ان باتوں پر راضی ہیں۔ 

8. ان باتوں پر سختی سے عمل ہوگا اور زید روز قیامت جواب دہ ہوں گے۔

الجواب باسم ملهم الصواب

دو بیویوں کے درمیان شب گزاری میں برابری قائم کرنا واجب ہے اس لئے ایسا کوئی معاہدہ کرناجس میں ایک بیوی کا حق ضائع ہورہا ہو درست نہیں البتہ اگر کوئی بیوی اپنی رضامندی سے اپنے ایام دوسری بیوی کو دے دے تو یہ جائز ہے لیکن وہ جب چاہے واپس برابر برابر اپنی باری کا مطابہ کر سکتی ہے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر زید کی دوسری بیوی اس بات پر راضی تھی کہ آپ اس کے ساتھ ہفتے میں دو دن رہیں اور پہلی بیوی کے ساتھ پانچ دن تو یہ درست ہے لیکن دوسری بیوی جب چاہے اپنی برابری کا مطالبہ کر سکتی ہے اور زید پر اس مطالبے کو پورا کرنا لازم ہے۔

وإن رضيت إحدی الزوجات بترك قسمها لصاحبتها جاز ولها أن ترجع في ذلك كذا في الجوهرة النيرة

ولو تزوج امرأتين علی أن يقيم عند إحداهما أكثر أو أعطت لزوجها مالا أو جعلت علی نفسها جعلا علی أن يزيد قسمها أو حطت من المهر لكي يزيد قسمها فالشرط والجعل باطل ولها أن ترجع في ما لها كذا في الخلاصة۔ ( الفتاوی الهندية (1/ 341)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4444 :

لرننگ پورٹل