سوال:السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے گھر میں کوئی آٹا، نمک ،تیل ، چاول ادھار لینے کےلیے آتے ہیں اور جب واپس کرتے ہیں تو جس ناپ پر لیے گئے مثلاً ایک کپ جو ہمارے اور ان کے گھر میں یکساں ہے اس کے بر عکس کپ میں نمک، تیل لوٹا تےہیں کمی کرکے اور اسی طرح چاول اور آٹا جو ہم استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور ہمیں لوٹاتے ہیں۔ کیا اس میں سود ہے یا نہیں اگر ہے تو واضح کریں اور نہیں ہے تو اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں اورہمارے لیے اس صورت میں کیاحکم ہے ؟
الجواب باسم ملهم الصواب
پڑوسیوں کے درمیان کھانے پینے کی اشیاء کا لین دین قرض کہلاتا ہے اس لئے بہتر تو یہ ہے کہ جس برتن ميں آٹا یا چینی وغیرہ لی ہے اسی برتن میں واپس کریں لیکن اگر پڑوسی کسی اور برتن میں چیز واپس کرے تو چونکہ عرف میں اس معمولی کمی بیشی کا اعتبار نہیں کیا جاتا نیز ہم جنس اشیاء میں ربو اس وقت متحقق ہوتا ہے جب وہ نصف صاع یعنی پونے دو کلو تک پہنچتی ہو۔ نصف صاع سے کم مقدار میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کی صورت میں ربو (سود) کا حکم نہیں لگایا جاتا اس لئے شرعا نصف صاع کے کم اشیاء کا آپس میں معمولی کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے۔
احسن الفتاوٰی میں ہے : سوال: زیدنے عمرو سے ایک پیالی شکر قرض لی ، یہ معاملہ جائز ہوا؟جبکہ اناء متعین سے استقراض کو فقہاء رحمہم اللہ نے ناجائز فرمایا ہے ، علاوہ ازیں شکر وزنی ہے تو اس کا استقراض کیلا احتمال ربو کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہیئے۔
جواب: جائز ہے ، اناء معین سے استقراض کے ناجائز ہونے کی وجہ یہاں مفقود ہے کیونکہ بصورت ضیاع بعینہ اس جیسی پیالی دستیاب ہو سکتی ہے ، بالفرض اگر کچھ تفاوت ہو بھی تو وہ غیر معتبر ہے لان العرف علی اھدارہ۔ علاوہ ازیں یہ معیار مسوی کے تحت داخل ہی نہیں ،للان اقل المعیار فی الکیل نصف الصاع وفی الوزن الرطل وما لایدخل تحت المعیار السوی لا یتحقق فیہ فاحتین۔ (جلد :7 ،صفحہ:23)
(وحل) بيع ذلك (متماثلا) لا متفاضلا (وبلا معيار شرعي) فإن الشرع لم يقدر المعيار بالذرة وبما دون نصف صاع (كحفنة بحفنتين) (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 174)
ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون والعددي المتقارب كالبيض ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب والعدديات المتفاوتة (الفتاوى الهندية، 3/ 201)
(قوله وبيع الدقيق إلخ) لا حاجة إلى استخراجه، فقد وجد في الغياثية عن أبي يوسف أنه يجوز استقراضه وزنا إذا تعارف الناس ذلك وعليه الفتوى اهـ ط وفي التتارخانية: وعن أبي يوسف يجوز بيع الدقيق واستقراضه وزنا إذا تعارف الناس ذلك استحسن فيه اهـ ونقل بعض المحشين عن تلقيح المحبوبي أن بيعه وزنا جائز، لأن النص عين الكيل في الحنطة دون الدقيق اهـ ومقتضاه أنه على قول الكل لأن ما لم يرد فيه نص يعتبر فيه العرف اتفاقا. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 5/ 176)
وفيها استقراض العجين وزنا يجوز وينبغي جوازه في الخميرة بلا وزن سئل رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن خميرة يتعاطاها الجيران أيكون ربا فقال ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما رآه المسلمون قبيحا فهو عند الله قبيح» (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 5/ 167)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4531 :