ایک شخص ہے جس کے کوئی سگے بہن بھائی زندہ نہیں ہیں، ان کے بچے موجود ہیں، ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، ماموں، پھوپھی وغیرہ کوئی بھی نہیں ہے، بیوی ہے، اولاد نہیں ہے، تین بھائی اور دو بہنیں باپ شریک ہیں، اب اس کی وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کےموجودہ ورثاء میں سے صرف اس کی بیوی اور علاتی (باپ شریک) بہن بھائی وارث ہیں۔ بوقت انتقال مرحوم کی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد، نقدی سونا چاندی اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان تھا، حتی کہ سوئی دھاگہ سب مرحوم کا ترکہ ہے، سب سے پہلے اس میں سے کفن دفن کا متوسط خرچہ نکالا جائے، اس کے بعد مرحوم کے ذمے کسی کا قرض ہو تو کل مال سے اس کو ادا کیا جائے، اس کے بعد مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیا جائے، اس کے بعد بقیہ مال کو 32حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی بیوہ کو 8 حصے اور مرحوم کے ہر ایک علاتی بھائی کو 6 حصے اور مرحوم کی علاتی بہن کو 3 حصے ملیں گے۔یعنی 100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 25روپے، مرحوم کے ہر ایک علاتی بھائی کو18.75روپے اور مرحوم کی ہر ایک علاتی بہن کو9.375روپے ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
ورثاء |
بیوہ |
علاتی بھائی |
علاتی بھائی |
علاتی بھائی |
علاتی بہن |
علاتی بہن |
مسئلہ 4 |
1 |
3 |
||||
تصحیح 32 |
8 |
6 |
6 |
6 |
3 |
3 |
فیصد |
25 |
18.75 |
18.75 |
18.75 |
9.375 |
9.375 |
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4430 :