ہمارے علاقے میں عباسی خاندان کی اکثریت ہے۔ جن کا شجرہ نسب محفوظ و مکتوب چلا آتا ہے۔ بعض علمائے کرام نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ چوں کہ عباسی خاندان بنو ہاشم میں سے ہے اس لیے ان پر زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جا سکتی ۔یہ ایک نئی بات تھی، چنانچہ لوگوں نے مختلف اشکالات ظاہر کیے،بعض نے کہا کہ مسئلہ بیان کرنے والے غیر عباسی اور مدارس کے علماء ہیں اس لیے تعصب اور زکوٰۃ کی رقم مدارس میں لے جانے کے لیے وہ اس بات کو اچھال رہے ہیں حالانکہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے۔یہ کوئی دینی معاملہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ ہے کہ یہ ممانعت اس دور میں تھی جب بنو ہاشم حکمران تھے، اگر اس وقت انہیں زکوٰۃ کھانے کی اجازت دی جاتی تو وہ سارا مال آپس میں ہی بانٹ لیتے ۔اب جبکہ ان کی حکومت چلی گئی تو یہ حکم بھی چلا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس دور میں بنو ہاشم کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر تھے جب وظائف ختم ہو گئے تو ان کے حق میں حرمت زکوٰۃ بھی ختم ہو گئی ۔اگر ان کے لیے زکوٰۃ کے جواز کی رائے پر عمل نہ کیا جائے تو بنو ہاشم کے غرباء کے حقوق کا ضیاع لازم آئے گا۔بعض کہتے ہیں جس طرح عام لوگوں کے لیے صدقات اہل خاندان کو دینا افضل ہے اس طرح بنو ہاشم کے لیے بھی افضل یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان والوں کو زکوٰۃ ادا کرے اور دوہرا اجر پائے، یہ حضرات مزید کہتے ہیں کہ بنو ہاشم پہ زکوٰۃ ہے تو حرام لیکن دوسروں کی حرام ہے اور آپس میں ایک دوسرے کی زکوٰۃ ان پر حرام نہیں ہے۔ یہ لوگ الفاظ حدیث ’’تؤخذ من اغنياءهم فترد في فقراءهم‘‘سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بنو ہاشم کے حق میں زکوٰۃ کے جواز کا فتویٰ دیا تھا، بعد میں لوگوں نے اسے بدل دیا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ بنو ہاشم پر صرف زکوٰۃ ہی حرام ہے یا مذکورہ حرمت فطرانہ ، عشر ، فدیہ رمضان ، یا کفارہ کو بھی شامل ہے ؟عرض ہے کہ ان سوالات و اشکالات کا مفصل ومدلل جواب عطا فرمائیں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
رسول اللہﷺ نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنوہاشم کے ان تمام افراد کے لیے جنہوں نے رسول اللہﷺ کی حمایت کی اور دین اسلام کی اشاعت میں حصہ لیا، زکوٰۃ کھانے کو حرام قرار دیا۔اس حرمت کو ان کا اعزاز واکرام قرار دیا، کیوں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ زکوٰۃ کامال میل کچیل ہے، اس کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے۔ عباسی خاندان کے لوگ رسول اللہﷺ کے محترم چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اور بعد میں رسول اللہﷺ کی ہر طرح سے مدد کی، آپﷺ ان کا بہت احترام فرماتے تھے اور ہر طرح خیال رکھتے تھے۔ لہذا بنوہاشم کے دیگر قبائل کی طرح عباسی خاندان کے لیے بھی زکوٰۃ کا حرام ہونا کوئی وقتی مصلحت وحکمت پر مبنی نہیں تھا بلکہ ان کے اعزاز واکرام میں قیامت تک کے لیے زکوٰۃ کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے سوال میں اٹھائے گئے اعتراضات کی تمام شقیں غلط ہیں۔ نیز زکوٰۃ کی طرح دیگر صدقات واجبہ، فطرانہ، نذر ونیاز کا بھی یہی حکم ہے کہ بنو ہاشم اور اہل بیتِ رسول اللہﷺ کو دینا جائز نہیں۔ اسی طرح بنوہاشم سادات خاندان کے لوگ آپس میں بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، البتہ اہل ثروت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نفلی صدقات خیرات سے بنوہاشم کے غرباء کی مدد کریں۔
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد (صحيح مسلم 2/ 754) ترجمہ:’’يہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں(ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں) اور بلاشبہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں ہے‘‘
یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنے خاندان کے غلام کے لیے بھی زکاۃ لینا جائز نہیں قرار دیا، فرمایا کہ غلام بھی آقا کی قوم سے شمار ہوتاہے۔
سنن ابی داود میں ہے: مولی القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة (سنن أبي داود ت الأرنؤوط 3/ 88) ترجمہ:’’كسی قوم كا غلام انهيں میں شمار ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ‘‘۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے: ثم قال: قام رسول الله صلی الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا، بماء يدعی خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنی عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدی والنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به " فحث علی كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي» فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم ((صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)ترجمہ:’’یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (ہم تینوں) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، ۔۔۔ پھر انہوں (زید بن ارقم) نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ’’غدیرِ خم‘‘ جو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے کے مقام پر ہمیں خطبہ دیا، چناں چہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور وعظ و نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: امابعد! اے لوگو! آگاہ رہو، میں بھی ایک بشر ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا پیامبر (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے اور میں اسے لبیک کہوں، لہٰذا میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ رہاہوں، پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، سو اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ ﷺ نے کتاب اللہ کے اتباع پر لوگوں کو آمادہ کیا اور خوب ترغیب دی، پھر فرمایا: اور (دوسری چیز) میرے اہلِ بیت، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتاہوں۔ یزید بن حیان کہتے ہیں: حصین نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: اے زید! رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اہلِ بیت میں سے ہیں، لیکن (یہاں) اہلِ بیت وہ ہیں جن کے لیے صدقہ لینا حرام کردیا گیا ہے۔ حصین نے پوچھا: وہ کون ہیں (جن پر صدقہ لینا حرام ہے)؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ علی (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، عقیل (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، جعفر (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں، عباس (رضی اللہ عنہ) کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!‘‘
لہذا معلوم ہوا کہ صدقات کا حرام ہونا یہ حضورﷺ کی قرابت کی بنیاد پر ہے اور جن سے علی الاعلان رسول اللہ ﷺ نے اپنی قرابت ختم کر دی وہ بنو ہاشم میں ہونے کے باوجود اس حکم سے خارج ہیں چنانچہ ابولہب کی اولاد بنو ہاشم میں سے ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی مسلمان ہے تو اس کے لئے صدقہ حلال ہے کیونکہ ابو لہب سے حضور ﷺ نے قرابت کے ختم کرنے کا اعلان فرما دیا تھا ۔
(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي – صلی الله عليه وسلم – أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلی أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي إذ لا تحرم عليهم كلهم بل علی بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلی هاشم وتحل لهم الصدقة. اهـ.
وأجاب في النهر بقوله وأقول قال في النافع بعد ذكر بني هاشم إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله – صلی الله عليه وسلم – «لا قرابة بيني وبين أبي لهب فإنه آثر علينا الأفجرين» وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف علی بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل لعدم قرابته وهذا حسن جدا لم أر من نحا نحوه فتدبره. اهـ. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار، 2/ 350)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4422 :