سنن ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث موصول ہوئی ہے کہ موت کا اگر علاج ہوتا تو سنامکی میں ہوتا۔ اس کےبارے میں تحقیق بتادیجیے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
سنن ابن ماجہ میں ہے: أَبَا أُبَيّ بْنَ أُمِّ حَرَامٍ…يَقُولُ «سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِالسَّنَی وَالسَّنُّوتِ فَإِنَّ فِيهِمَا شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا السَّامُ قَالَ الْمَوْتُ»…قَالَ الْحَاكِمُ إِنَّهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ. (حاشية السندي علی سنن ابن ماجه، كتاب الطب، باب السنا والسنوت، 2/ 344) ترجمہ:’’حضرت ابو ابی ابن ام حرام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم سنامکی اور شہد کو لازم پکڑو، کیونکہ ان میں سام کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے۔ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول سام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: موت‘‘۔
اس حدیث کی تحقیق میں علامہ نور الدین سندھی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور اس صحت پر اعتماد کیا ہے، البتہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس سند پر کچھ کلام فرمایا ہے، لیکن چونکہ اس حدیث کے دیگر متابعات اور شواہد بھی موجود ہیں، لہذا ان کی وجہ سے یہ حدیث صحت کے درجے میں پہنچ جاتی ہے۔
قال المحقق عبد الله بن حمد في مختصر تلخيص الذهبي: الحديث في سنده عمرو بن بكر بن تميم السكسكي، الشامي، وهو متروك. اهـ. من المجروحين (2/ 78 – 79)، والكامل (5/ 1795). والتقريب (2/ 66 رقم 541)، والتهذيب (8/ 8 رقم 9). لكن عمراً هذا لم ينفرد به، بل تابعه -كما تقدم- شداد بن عبد الرحمن الأنصاري الذي هو من ولد شداد بن أوس وقد ذكره ابن حبان في ثقاته (6/ 441) وقال: "مستقيم الحديث"، وروی عنه عبد الله بن مروان بن معاوية الفزاري، وإبراهيم ابن محمد بن يوسف الفريابي، وعليه فيكون حسن الحديث.
الحكم علی الحديث: الحديث ضعيف جداً بإسناد الحاكم لشدة ضعف عمرو بن بكر، وهو حسن لذاته بالطريق الأخری التي رواها المزي من طريق ابن أبي عاصم. وله شاهد من حديث أسماء بنت عميس، وأم سلمة، وأنس -رضي الله عنهم-. أما حديث أسماء بنت عميس -رضي الله عنها- فلفظه: قالت: قال لي رسول الله -صلی الله عليه وسلم-: "بماذا كنت تستمشين؟ " قلت: بالشبرم، قال: "حار حار"، ثم استمشيت بالسنا إلی آخره. (مختصر تلخيص الذهبي، 6/ 2752)
البتہ ہر شخص کے لیے اس کے استعمال سے پہلے مناسب ہے کہ اپنے مزاج و عمر کے مطابق اس کی مقدار اور طریقہ استعمال کے بارے میں کسی حاذق طبیب سے مشورہ لے کر اسی پر عمل کرے تاکہ کسی نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4420 :