خلیجی ممالک میں کورونا صورتحال کی وجہ سے حکومت نے مسجد بند کردی تو عید الفطر کی نماز گھر میں پڑھی جاسکتی ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
مذکورہ مسئلے میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ عید کی نماز گھر میں جائز نہیں جیسے جمعہ کی نماز گھر میں جائز نہیں، لیکن فقہاء کی تصریحات اور عبارات کی روشنی میں ہمیں یہ بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ شہر یا قصبہ میں جہاں جمعہ کی نماز جائز ہے وہاں عید کی نماز بھی جائز ہے ، عام حالات میں عید کی نماز اجتماعی طور پر عیدگاہ میں پڑھنا مسنون ہے، تاہم بوقت ضرورت متعدد جگہوں میں عید کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔ عید کی نماز صحیح ہونے کی شرائط وہی ہیں جو صحت جمعہ کی ہیں۔ البتہ جماعت میں افراد کی تعداد کی شرط میں اختلاف ہے۔ احناف کے ہاں اقامت جمعہ کےلیے امام کے علاوہ تین مردوں کا جماعت میں شریک ہونا شرط ہے۔ جبکہ عید کی نماز کے بارے میں بعض فقہاء احناف نے دو آدمیوں کی جماعت کو کافی قرار دیا ہے، جیساکہ النہر الفائق کی عبارت میں اس کی صراحت ہے۔ مذکورہ حالات میں جبکہ مساجد بند ہیں اس قول کو بنیاد بناکر گھر یا کسی دوسرے مقام پر دو یا زیادہ افراد مل کر عید کی نماز ادا کرلیں تو حنفیہ کے ہاں اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے۔
وأما شرائط وجوبها وجوازها فكل ما هو شرط وجوب الجمعة وجوازها فهو شرط وجوب صلاة العيدين وجوازها من الإمام والمصر والجماعة والوقت إلا الخطبة فإنها سنة بعد الصلاة.(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 1/ 275)
وإذا لم يشترط السلطان أو نائبه فلا معنی لاشتراط الإذن العام وكأنهم استغنوا بذكر السلطان عنه، علی أنا قدمنا أن الإذن العام لم يذكر في الظاهر. نعم بقي أن يقال: من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، فكيف يصح أن يقال: إن شروطه الجمعة. وهذا كله قول الإمام، وقالا: هو علی كل من يصلي المكتوبة/ لأنه تبع لها. (النهر الفائق شرح كنز الدقائق، 1/ 373)
لكن اعترض ط ما ذكره المصنف بأن الجمعة من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام كما في النهر. (رد المحتار، كتاب الصلاة، باب العيدين)
ويستثنی أيضاً عدد الجماعة، فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام، بخلاف الجمعة. (الفقه علی المذاهب الاربعة، كتاب الصلاة، حكم صلاة العيدين ووقتهما)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4456 :