سوال یہ ہے کہ ایک عورت جب دوسری شادی کرتی ہے تو اس کے پہلے شوہر سے جو اس کی بیٹیاں ہیں وہ اس شوہر کے لیے محرم ہوں گی؟
الجواب باسم ملهم الصواب
عورت دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد ہمبستر بھی ہو چکی ہو، تو پہلے شوہر سے اس عورت کی تمام اولاد دوسرے شوہر کے لیے محرم ہے، ان سے شرعاً نکاح جائز نہیں۔ لہذا لڑکیوں کا اپنے سوتیلے باپ یعنی والدہ کے دوسرے شوہر سے کوئی پردہ نہیں۔ البتہ فتنے کا خوف ہو تو علیحدگی لازم ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ … وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ (النساء:23) ترجمہ: ’’تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں ۔۔۔ اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو‘‘۔
قال الحصكفي: أسباب التحريم أنواع: قرابة، مصاهرة. وقال الشامي: (قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 28)
(ولا ببنت امرأته) ش: أي ولا يحل أيضا أن يتزوج ببنت امرأته م: (التي دخل بها لثبوت قيد الدخول بالنص) ش: وهو قَوْله تَعَالَی: {مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ} (النساء: الآية 23) ، وإن لم يدخل بها حتی حرمت عليه بطلاق أو موت يحل له أن يتزوج بالبنت، لأن هذه الحرمة تعلقت بشرط الدخول. البناية شرح الهداية (5/ 23)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4414 :