سر میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ کمپنیز دو طرح سے فنانسنگ کرتی ہیں، ایک ڈیبٹ فنانسنگ (Debt Financing) اور دوسری Equity Financing، ریٹرن Equity پر ڈیوڈنڈاور ڈیبٹ پر سود۔ Equity پر کمپنی جو ریٹرن دیتی ہے وہ رسک فری ریٹ کے ساتھ ساتھ پریمیم (Premium) بھی شامل کرکے ریٹ نکالتی اور پھر ڈیوڈنڈ دیتی ہے۔ اب ایک انویسٹر جو رسک نہیں لینا چاہتا اور رسک پریمیم بھی Sacrifice کرتا ہے، وہ رسک فری میں انویسٹ کرے تو اس کے پاس بس ڈیبٹ کا آپشن ہے۔ وہاں ربا شامل ہے۔ ہر آدمی رسک بھی نہیں لیتا تو ایسے انویسٹر کے پاس اب کیا حل ہے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور جدید میں مکمل عالمی نظام کی بنیاد زیادہ تر سود اور سٹے پر قائم ہے، کسی بھی بڑی تجارتی کمپنی یا ادارے کا کاروبار مکمل طور پر سود یا جوے سے پاک ہونا ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے موجودہ دور کے اداروں میں سرمایہ کاری کی غرض سے رقم لگانے والے حضرات سود اور دیگر تمام حرام امور سے اجتناب برتنا چاہیں تو بہت سی جگہوں پر انھیں انتہائی پرکشش پیشکشوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ گذشتہ دور میں بھی کفار نے خاص حرمت سود کے قرآنی فیصلے کے خلاف بہت زیادہ غلغلہ کیا اور حق جل شانہ نے قرآن مجید ہی میں اعتراضات کرنے والوں کو تنبیہ اور منکرین کو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی۔ بہر حال ایک مؤمن جس کے دل میں احکام شرعیہ کی وقعت اپنی جان اور مال سے بڑھ کر ہو چند دنیاوی فوائد کی وجہ سے حکم خداوندی کو کبھی پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ اللہ جل شانہ آپ کو صبر اور استقامت نصیب فرمائے۔
ڈیبٹ فائنانسنگ اگر چہ خطرات سے خالی ہے مگر یہ مکمل سودی قرضہ ہے، اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں۔جبکہ ایکویٹی فائنانسنگ یعنی کمپنی کے حصص خرید کر سہ ماہی یا سالانہ بنیادوں پر اپنے حصص کے بقدر منافع حاصل کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ جو ذیل میں درج ہیں:
1۔جس کمپنی کے شیئرز خریدنے کا ارادہ ہو اس کمپنی کا کاروبار حلال ہو۔
2۔اس کمپنی کے کل اثاثے سیال(Liquid Assets) نہ ہوں بلکہ کچھ منجمد اثاثے(Fixed Assets) وجود میں آچکے ہوں۔
3۔کمپنی کا کل کاروبار تو حلال ہو لیکن قانونی مجبوریوں کے پیش نظر وہ کمپنی کچھ سودی لین دین کرتی ہو تو سالانہ اجلاس عام (AGM) میں اس سودی لین دین کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس پر عدم رضا مندی کا اظہار کیا جائے۔
4۔جب منافع تقسیم ہو تو آمدن کے گوشوارے کے ذریعہ سودی لین دین اور رسک پریمیم وغیرہ سے حاصل ہونے والے حصے کو معلوم کرکے اپنے منافع میں سے اتنا فیصد حصہ بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کردے۔
5۔ شیئرز فروخت کرکے نفع کمانے کا ارادہ ہوتو خرید کر پہلے اپنے قبضہ میں لے، اس کے بعد آگے فروخت کرے، قبضہ آنے سے پہلے فروخت کرنا شرعًا ناجائز ہے۔
مندرجہ بالا شرائط کی مکمل پاسداری کے ساتھ کسی کمپنی وغیرہ میں سرمایہ کاری منفعت بخش ہو تو غنیمت جانیں ورنہ حلال آمدنی کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں انھیں اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا (الطلاق:2) ترجمہ: ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۞ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ (البقرة:۲۷۵-۲۷۹) ترجمہ:’’ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہواللہ سےڈرو اور چھوڑ دو اس کو جو کچھ کہ باقی رہ گیا ہے سود میں سے اگر (واقعی) تم لوگ ایماندار ہو۔پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ ‘‘۔
قال ابن عابدين في سبيل كسب الخبيث: إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه. (حاشیۃ ابن عابدین، ص99، الناشر دار الفكر للطباعة والنشر، سنة النشر 1421هـ – 2000م، مكان النشر بيروت)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر1601 :