نماز کےلیے کی جانے والی نیت کے بارے میں ایک پوسٹ موصول ہوئی جس میں زاد المعاد کے حوالے سے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا قول مذکور تھا، وہ فرماتے ہیں:’’نبی کریم ﷺ نماز کےلیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، ا س سے پہلے کچھ نہ کہتے، الفاظ سے نیت نہ کرتے، نہ یہ کہتے کہ میں الله کے لیے یہ نماز پڑھنے لگا ہوں، نہ یہ کہ منہ میرا کعبہ کی طرف، نہ یہ کہ میں چار رکعات پڑھنے لگا ہوں، نہ یہ کہتے کہ میں امامت کروارہا ہوں، نہ یہ کہ پیچھے اس امام کے، نہ یہ کہ یہ ادا نماز ہے یا قضا نماز ہے اور نہ یہ کہ یہ فرض کا وقت ہے۔ یہ ساری بدعات ہیں، نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی روایت نہیں، نہ صحیح سند کے ساتھ اور نہ ضعیف سند کے ساتھ، نہ مسند اور نہ ہی مرسل، بلکہ نہ ہی آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، نہ تابعین نے اسے اچھا کہا ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے اسے اچھا کہا ہے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیے کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
نماز شروع کرنے سے پہلے شروع کی جانے والی نماز کی نیت کرنا نماز کی شرائط میں سے ہے، اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی، البتہ اصل نیت دل سے ہوتی ہے کہ میں مثلاً ظہر کی چار رکعت فرض پڑھ رہا ہوں، زبان سے نیت کرنے کا کیا حکم ہے ، اس بارے میں بعض کتابوں میں نماز شروع کرنے سے اس طرح نیت کرنے کا ذکر ہے: نویت أن أصلی للہ رکعتي صلاة الفجر، متوجهاً إلی جهة الكعبة الشريفة. اقتديت بهذا الإمام… إلخ۔
اس طرح ہر نماز کے لیے الگ نیت ہوتی ہے، بعض الفاظ مشترک ہیں اور بعض الگ، مثلاً: فرض میں: فرض اللہ تعالیٰ،اور سنت میں: سنة رسول الله، وغیرہ، بلکہ نیت نامہ کے نام سے مستقل کتابچے بھی چھپتے ہیں، اس طرح نیت کرنے کو اس قدر ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بعض دیر سے آنے والا نیت کرتے کرتے اتنی دیر لگا دیتا ہے کہ اس کی رکعت ہی نکل جاتی ہے۔
زبان سے اتنی لمبی نیت کو اس قدر ضروری سمجھنا یقیناً بدعت ہے، فقہاء نے جہاں بھی زبانی نیت کرنے کو بدعت قرار دیا ہےاس سے یہی طبعی نیت کو ضروری سمجھ کر نیت کرنا مراد ہے۔ لیکن متاخرین فقہاء نے زبانی نیت کو مستحب قرار دیا ہے، یعنی ضروری سمجھے بغیر مختصر نیت کرلی جائے، مثلاً امام کی اقتداء میں ظہر کی فرض نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس طرح دل کی نیت کے ساتھ زبان سے نیت کرنا مستحب اس لیے ہے کہ اس میں دلجمعی ہوتی ہے، نماز کی طرف دھیان ہوتا ہے اور توجہ بڑھ جاتی ہے۔
قال ابن الهمام في استحباب النية: وَھٰذَا لِأَنَّ الْإِنْسَانَ قَدْ یَغْلِبُ عَلَیْہِ تَفَرُّقُ خَاطِرِہٖ ، فإِذَا ذَکَرَ بِلِسَانِہٖ کَانَ عَوْناً عَلٰی جَمْعِہ. (فتح القدیر:۱/۲۷۳)
وَقَدْ یُقَالُ: نُسَلِّمُ أَنَّھَا بِدْعَۃٌ ، وَ لٰکِنَّھَا مُسْتَحْسَنَۃٌ اِسْتَحَبَّھَا المَشَائِخُ لِلْاِسْتِعَانَۃِ عَلٰی اسْتِحْضَارِ النِّیَّۃِ لِمَنِ احْتَاجَ، وَ ھُو ﷺ وَ أصْحَابُہٗ لَمَّا کَانُوْا فِي مَقَامِ الْجَمْعِ وَ الْحُضُوْرِ لَمْ یَکُوْنُوْا مُحْتَاجِیْنَ إِلٰی الاسْتِحْضَارِالْمَذْکُوْرِ. (مرقاۃ المفاتیح:۱/۴۱)
يُسْتَحَبُّ لَہٗ أَنْ یَّتَکَلَّمَ بِلِسَانِہٖ بِنِیَّتِہٖ فَیَقُوْلُ: ’’أُؤَدِّيْ ظُھْرَ الْوَقْتِ‘‘ فَیُکَبِّرُ، وَھِيَ بِدْعَۃٌ، مَا رُوِیَتْ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِّنَ السَّلَفِ، أَمَّا أَنَّہٗ یُسْتَحَبُّ لِلْمُشَوَّشِ الْخَاطِرِ الْمُوَسْوَسِ الْفِکْرِ إِذَا خَشِيَ أَلَّا یَرْتَبِطَ لَہٗ فِيْ قَلْبِہٖ عَقْدُ النِّیَّۃِ أَنْ یَّعْضِدَہٗ بِالْقَلْبِ حَتّٰی یَذْھَبَ عَنْہُ اللَّبْسُ. (القبس لابن العربي: ۱/۲۱۴، التاج والإکلیل:۱/۵۱۵)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4371 :