لاگ ان
پیر 28 شعبان 1444 بہ مطابق 20 مارچ 2023
لاگ ان
پیر 28 شعبان 1444 بہ مطابق 20 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
پیر 28 شعبان 1444 بہ مطابق 20 مارچ 2023
پیر 28 شعبان 1444 بہ مطابق 20 مارچ 2023

 ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا، اس بیوی سے اس کے بچے بھی ہیں، بیوی کے انتقال کے بعد اس نے دوسری شادی کی، پہلی بیوی کا زیور اس نے دوسری بیوی کو بغیر مہر کے ویسے ہی دےدیا، کچھ عرصہ بعد دوسری بیوی سے معاملات خراب ہوئے تو اس نے دوسری بیوی کو طلاق دےدی، اب مسئلہ یہ ہوا کہ اس صاحب کے اور دوسری بیوی کے گھر والوں کے درمیان اختلاف ہوگیا، بیوی والوں نے کہا کہ ہم نے جو سامان دیا تھا وہ ہمیں واپس کردیں اور یہ صاحب کہنے لگے کہ میں نے جو زیور وغیرہ دیا تھا وہ مجھے واپس کردیں۔ خیر اس نے وہ زیور ان سے لے لیا، کیا یہ لینا صحیح ہے یا نہیں؟ اور کیا لینے کے بعد دوبارہ لوٹانا چاہیے یا نہیں؟ اگر مرد لوٹانا نہ چاہے تو اس کے متبادل کیا صورت ہوسکتی ہے؟  دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ زیور تو پہلی بیوی کی ملکیت کا تھا تو اس کا ورثاء میں تقسیم ہونا ضروری تھا، لیکن کیا ورثاء کی اجازت کے بغیر اس زیور کو کسی اور کے حوالے کرنے کی اجازت ہے؟ مرد کا کہنا ہے کہ بچے چونکہ چھوٹے نابالغ ہیں اس لیے میں نے آگے دےدیا، اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا

الجواب باسم ملهم الصواب

1۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد تقسیم ترکہ سے قبل مرحومہ کے زیورات دوسری بیوی کو دینا ناجائز عمل ہے، بچوں کے نابالغ ہونے کی وجہ سے ان کے باپ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس زیور کو جسے چاہے دے دے۔ واپسی کے بعد اس زیور کو مجموعی ترکہ میں شامل کر کے تمام ورثا میں شرعی قاعدہ کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔

2۔ دوسری بیوی کو زیورات اگر واقعۃً عاریۃً استعمال کے لیے دیے تھے تو وہ ان زیورات کی مالک نہیں بنی، شوہر کو واپس لینے کا حق حاصل ہے۔ اور اس کے بدلے شوہر کے ذمہ کوئی چیز ادا کرنا ضروری نہیں۔ البتہ اگر  دوسری بیوی کے لیے کوئی مہر مقرر تھا تو اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہے۔ اگر مہر مقرر ہی نہیں ہوا تو شوہر کے ذمہ مہر مثل (یعنی اس عورت کے حاندان کی عورتوں کو جو مہر دیا جاتا ہے) دینا لازم ہے۔

الفتاوی الهندية (6/ 447)

التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث.

الفتاوی الهندية (4/ 363)

حكم العارية: (وأما) (حكمها) فهو ملك المنفعة للمستعير بغير عوض أو ما هو ملحق بالمنفعة عرفا وعادة عندنا، كذا في البدائع.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 688)

وشرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول.

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4466 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل