میرے پاس چودہ بھینسیں ہیں، جو میں نے ستمبر سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں خریدی ہیں اور میں نے ستمبر میں ہی فارم کے لیے پلاٹ بھی خریدا تھا اور میرا اس پلاٹ کو فی الحال بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ مجھے زکوٰۃ دینی ہے کہ نہیں؟ اور اگر دینی ہے تو کب دینی ہے؟ نیز میں نے ستمبر سے اب تک جو رقم دوبارہ جمع کی ہے، اس پر بھی زکوٰۃ بنتی ہے؟ میر ی رہنمائی کریں میں آپ کا انتہائی شکرگزار رہوں گا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
جس شخص کے پاس سونا چاندی، نقد رقم اور مال تجارت اتنا جمع ہو جائے جس کی کل رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچتی ہو وہ صاحب نصاب ہے۔ ایک شخص جب نصاب کے بقدر مال کا مالک بن جائے تب سے اس کا سال شروع ہوجاتا ہے، پھر یہ سال مکمل ہونے پر آدمی کے پاس جتنا مال ہو اس پر زکوٰۃ لازم ہے بشرطیکہ وہ نصاب سے کم نہ ہو۔
ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلی ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك. (الفتاوی الهندية، كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها)
صورت مسئولہ میں پلاٹ خریدتے وقت آپ نے بیچنے کی نیت نہیں کی تھی اس لیے اس پلاٹ پر زکوٰۃ فرض نہیں۔اسی طرح بھینسیں دودھ بیچنے کی نیت سے خریدی ہیں، اس لیے ان بھینسوں پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں۔لہذا آپ کے نصاب کا سال جس وقت مکمل ہو، اس وقت آپ کے پاس جو کچھ نقد رقم، سونا چاندی، اور تجارتی سامان موجود ہو ان سب پر زکوٰۃ نکالنا فرض ہے۔ خواہ کچھ مال یا سامان پر سال نہ گزرا ہو۔
الفصل الثالث في بيان مال الزكاة: فنقول: مال الزكاة الأثمان، وهو: الذهب والفضة وأشباهها، والسوائم وعروض التجارة. (المحيط البرهاني في الفقه النعماني – إحياء التراث، 2/ 423)
قال الحصكفي: (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه…(وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض. وقال الشامي: (قوله: نسبة للحول) أي الحول القمري لا الشمسي كما سيأتي متنا قبيل زكاة المال (قوله: لحولانه عليه) أي لأن حولان الحول علی النصاب شرط لكونه سببا(الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 2/ 259)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3124 :