الجواب باسم ملهم الصواب
أن الوكيل بالقبض إنما يملك القبض علی وجه لا يكون للموكل أن يمتنع منه إذا عرضه عليه المطلوب فليس للوكيل بالقبض ذلك كالشراء بالدين والاستبدال (المبسوط للسرخسي (19/ 69)
والله أعلم بالصواب
4453 :
آپ کے ادارے میں زکوۃ سے متعلق ہونے والے آن لائن درس میں شرکت کی، جس میں مفتی صاحب نے بیان فرمایا تھا کہ زکوۃ کے مستحق شخص کو اگر کوئی چیز مالک بنا کر دی جائے مثلا راشن بیگ تو وہ شخص اس سامان کو کسی بھی طرح سے استعمال کر سکتا ہے، مثلا وہ شخص وہ سامان بیچ کر نقد پیسے استعمال کر سکتا ہے۔ دریافت یہ کرنا تھا کہ کیا یہ اصول صرف انفرادی شخص پر لاگو ہوتا ہے یا پھر کوئی تنظیم بھی ایسا کرسکتی ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
مختلف تنظیمیں اور رفاہی ادارے زکوۃ کی وصولیابی میں فقراء کے وکیل ہوتے ہیں کہ وہ فقراء کی طرف سے مال زکوۃ پر قبضہ کر کے اس کو فقراء تک پہنچائیں اور وکیل بالقبض کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس چیز میں کوئی تصرف یا تبدیلی کرے جس کا اس کو وکیل بنایا گیا ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر کسی تنظیم کو راشن بیگ دیئے جائیں کہ وہ اس راشن کو فقراء میں تقسیم کر دیں تو اس تنظیم یا انجمن کی انتظامیہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ راشن پیکج کو نقد روپوں میں تبدیل کر کے فقراء کے حوالے کرے بلکہ ان پر لازم ہے کہ بعینہ وہی راشن فقراء میں تقسیم کریں۔
أن الوكيل بالقبض إنما يملك القبض علی وجه لا يكون للموكل أن يمتنع منه إذا عرضه عليه المطلوب فليس للوكيل بالقبض ذلك كالشراء بالدين والاستبدال (المبسوط للسرخسي (19/ 69)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4453 :