ہمارے علاقوں میں شوہر بعض دفعہ بیوی کے ساتھ لڑائی کے دوران اسے کہتاہے خاموش ہوجاؤ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اس سے یقیناً ہمارے عرف میں مقصد استقبال ہوتا ہے نہ کہ حال، اور استقبال کا معنی غالب ہے، تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر آپ کے علاقہ کے کسی شخص نے اپنی علاقائی زبان میں یہ جملہ کہا تب تو اس کا حکم علاقائی زبان میں اس کے ترجمے اور مطلب سے متعلق ہو گا، اور اگر اردو زبان میں یہ جملہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تو اردو محاورے کے اعتبار سے یہ جملہ حال کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے۔
وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتی المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه علی النية، ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال: طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف.(رد المحتار، كتاب الطلاق)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4383 :