سورہ توبہ کے شروع میں ”بسم اللہ“ نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
اس کی توجیہ میں مختلف اقوال ہیں، جس میں مشہور یہ ہے کہ حضور ﷺ کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ ﷺ کاتبینِ وحی صحابہ کو بلاکر اس آیت کو جس جگہ جس سورت میں لکھنا ہوتا تھا بتلا کر اس آیت کو لکھوا لیتے، لیکن یہ آیتیں جنہیں سورۂ توبہ کے نام سے جانا جاتا ہے ان کے متعلق حضور ﷺ نے کچھ ارشاد نہیں فرمایا کہ انہیں کس سورت میں کس جگہ پر لکھنا ہے؟ اس لیے ایسا سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک مستقل سورت ہوگی، تاہم سورۂ انفال کی آخری اور سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات کے مضامین میں مناسبت پائی جاتی ہے، دونوں سورتوں میں مناسبت کی وجہ سے سورۂ توبہ کو سورۂ انفال کے بعد رکھا گیا، دوسری طرف جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری سورت شروع ہوتی تو سورت شروع ہونے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوتی تھی جس سے سمجھ لیا جاتا تھا کہ پہلی سورت ختم ہو گئی اب دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں ایسا ہی ہوا۔ سورہ توبہ نزول کے اعتبار سے بالکل آخری سورتوں میں سے ہے۔ اس کے شروع میں عام دستور کے مطابق نہ بسم اللہ نازل ہوئی اور نہ رسول کریم ﷺ نے کاتب وحی کو اس کی ہدایت فرمائی ۔اسی حال میں رسول کریم ﷺ کی وفات ہو گئی ۔ جامع قرآن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے عہد میں جب قرآن مجید کو کتابی صورت میں ترتیب دیا تو سب سورتوں کے خلاف سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ تھی اس لئے یہ شبہ ہو گیا کہ شایدیہ کوئی مستقل سورت نہ ہو بلکہ کسی دوسری سورت کا جز ہو، مضامین کے اعتبار سے یہ سورہ انفال کے مناسب تھی تو اسی کا جز قرار دیا اوراس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی، البتہ درمیان میں خالی جگہ چھوڑدی تاکہ علیحدہ ہونے کا احتمال بھی باقی رہے۔
واختلف العلماء في سبب سقوط البسملة من أول هذه السورة علی أقوال خمسة: الأول- أنه قيل كان من شأن العرب في زمانها في الجاهلية إذا كان بينهم وبين قوم عهد فإذا أرادوا نقضه كتبوا إليهم كتابا ولم يكتبوا فيه بسملة فلما نزلت سورة براءة بنقض العهد الذي كان بين النبي صلی الله عليه وسلم والمش ركين بعث بها النبي صلی الله عليه وسلم علي ابن أبي طالب رضي الله عنه فقرأها عليهم في الموسم ولم يبسمل في ذلك علی ما جرت به عاد تهم في نقض العهد من ترك البسملة. وقول ثان- روی النسائي قال حدثنا أحمد قال حدثنا محمد بن المثنی عن يحيی بن سعيد قال حدثنا عوف قال حدثنا يزيد الرقاشي «1» قال قال لنا ابن عباس: قلت لعثمان ما حملكم إلی أن عمدتم إلی [الأنفال] وهي من المثاني وإلی" براءة" وهي من المئين فقرنتم بينهما ولم تكتبوا سطر بسم الله الرحمن الرحيم ووضعتموها في السبع الطول «1» فما حملكم علی ذلك؟ قال عثمان: إن رسول الله صلی الله عليه وسلم كان إذا نزل عليه الشيء يدعو بعض من يكتب عنده فيقول: (ضعوا هذا في السورة التي فيها كذا وكذا). وتنزل عليه الآيات فيقول: (ضعوا هذه الآيات في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا). وكانت" الأنفال" من أوائل ما أنزل «2»، و" براءة" من آخر القرآن، وكانت قصتها شبيهة بقصتها وقبض رسول الله صلی الله عليه وسلم ولم يبين لنا أنها منها فظننت أنها منها فمن ثم قرنت بينهما ولم أكتب بينهما سطر بسم الله الرحمن الرحيم. وخرجه أبو عيسی الترمذي وقال: هذا حديث حسن.
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3878 :