کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جس گھر میں ہم لوگ رہتے ہیں وہ والد محترم کے نام پر ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے میں نے کچھ رقم گھر کی تعمیرات میں لگائی اور چاہت یہ ہے کہ ترکے کے وقت پہلے میری لگائی گئی رقم ادا کی جائے، تو اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟اگر چہ ابھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا والد صاحب سے، لیکن والد صاحب اس بات پر راضی ہیں اور تعمیرات کے بعد جو مکان کی قیمت بڑھ گئی تو اس صورت میں میری جانب سے لگائے گئے پیسوں کا کیا تناسب ہوگا؟ واضح رہے کہ میں اپنی الگ نوکری کرتا ہوں۔ تعمیرات میں لگائی گئی رقم میں نے قرض لی تھی، جو کہ میں ہی ادا کروں گا، والد صاحب نہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں آپ نے اپنے والد کے گھر کی تعمیر میں جو رقم لگائی ہے وہ چونکہ آپ کی ذاتی رقم ہے، یہ رقم والدصاحب کی اجازت سے تعمیراتی کام میں لگائی ہے اس لیے یہ والد صاحب کے ذمہ قرض ہو گی اور جب بھی مکان فروخت ہو گا تو آپ اپنی لگائی ہوئی رقم واپس لینے کے حق دار ہوں گے مکان کی قیمت کے بڑھنے سے آپ کی لگائی ہوئی رقم میں اضافہ نہیں ہو گا۔
كل من بنی في دار غيره بأمره فالبناء لآمره ولو لنفسه بلا أمره فهو له، وله رفعه إلا أن يضر بالبناء، فيمنع ولو بنی لرب الأرض، بلا أمره ينبغي أن يكون متبرعا كما مر اهـ(الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 6/ 747)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4485 :