لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

 میں نے 2019 میں اعتکاف کیا، میں مسجد میں اعتکاف کرنا چاہتی تھی لیکن گھر سے اجازت نہیں ملی اور گھر میں اعتکاف کیا، اس وقت میں اہل الحدیث کو follow کر رہی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ عورت کا اعتکاف بھی مسجد میں ہے، میرا خیال تھا کہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے گھر میں کرلوں، اور اس سال حج کا ارادہ تھا اور والد صاحب نے کہا اگر حج کے سلسلہ کے لئے نکلنا پڑے تو پہلے نیت کرتے وقت ہی شامل کر لیں، اور میں نے ایسے ہی نیت کی۔ کیا یہ اعتکاف مسنون ہے یا نفلی؟ مجھے اعتکاف کے مسائل کا علم نہیں تھا، دوران اعتکاف میں مغرب کے وقت کلی کے لئے washroom چلی جاتی اکثر، ایک روز فجر کے بعد قضاء حاجت کے بعد نیند میں محسوس ہوا کہ شاید پیشاب کے قطرے شلوار پر لگے ہیں، ممکن ہے وہ پہلے سے گیلی ہو، وہم ہوا ناپاکی کا، میں نے غسل کرلیا۔ اس سال معلوم ہوا کہ جو میں کلی کرنے کے لئے نکل جاتی تھی اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اور مجھے قضاء کرنی ہے، اب مجھے نہیں معلوم تھا کتنے دن کی قضاء ہے؟ تو اس سال میں نے اعتکاف کی نیت کی اور اس نیت میں شامل کیا کہ پچھلے سال میری قضاء پہلے ادا ہو ۔ دوپہر میں اعتکاف کے پہلے دن مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوا، جو میری ناقص عقل کو سمجھ آیا کہ مسنون اعتکاف میں نیت یہ نہیں ہوسکتی، اور قضاء صرف ایک دن کی کرنی ہوگی اگر اعتکاف ٹوٹ گیا ہے۔ تو میں نے دعا کی یا اللہ اس اعتکاف میں، میں مسنون کی نیت کرتی ہوں اور قضاء کا مسئلہ میں رمضان کے بعد معلوم کر کے ادا کروں گی ان شاء اللہ۔

براہ کرم اب مجھے بتائیں کہ میرا پچھلا اعتکاف کون سا تھا؟ اور اس سال کون سا؟ مسنون یا نفلی؟ اور اب مجھے قضاء کتنے دن کی کرنی ہے؟ اگر بہتری اس میں ہے کہ قضاء کروں تو کتنے دن کی کروں؟ تاکہ میرا دل مطمئن ہو۔

الجواب باسم ملهم الصواب

عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ عورت کو چاہیے کہ اعتکاف کے لیے گھر میں کسی ایک کونے کو اپنی جائے نماز کے لیے مخصوص کرلے اور اسی میں بیٹھ کر اعتکاف کرے۔ بلا ضرورت اس جگہ سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

رمضان کے آخری عشرے میں کیا جانے والا اعتکاف مسنون ہے، اور مسنون اعتکاف میں کسی کام مثلاً حج وغیرہ کا استثناء درست نہیں۔ البتہ یہ اعتکاف بلا ضرورت کلی وغیرہ کرنے کے لیے مسجد سے باہر جانے سے فاسد ہو گیا، لہذا رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ایک دن اور ایک رات روزہ رکھ کر اس اعتکاف کی قضا کرنا لازم ہے۔ اور بقیہ دنوں کی قضا نہیں۔ آپ كے دوسرے اعتكاف میں سنت کے ساتھ قضا کی نیت درست نہیں۔ لہذا اسے اعتکاف مسنون کہا جائے ۔

قال – رحمه الله – (الاعتكاف مستحب) يعني في سائر الأزمان أما في العشر الأواخر من رمضان فهو سنة مؤكدة لأن «النبي – عليه السلام – واظب عليه في العشر الأواخر من رمضان» والمواظبة دليل السنة. (الجوهرة النيرة علی مختصر القدوري، ١/ ١٤٥)

أما المرأة تعتكف في مسجد بيتها؛ لأنه هو الموضع لصلاتها فيتحقق انتظارها فيه، ولو لم يكن لها في البيت مسجد تجعل موضعا فيه فتعتكف فيه. ولا يخرج من المسجد إلا لحاجة الإنسان. (البناية شرح الهداية، ٤/ ١٢٦)

وعلی كل فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع، وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج علی قول أبي يوسف، أما علی قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه، وإنما قلنا أي باقيه بناء علی أن الشروع ملزم كالنذر وهو لو نذر العشر يلزمه كله متتابعاً، ولو أفسد بعضه قضی باقيه علی ما مر في نذر صوم شهر معين. «الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، ٢/ ٤٤٥)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4494 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل