ایک پوسٹ موصول ہوئی جسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بتائیے کیا یہ صحیح ہے؟
’’کیا خاتون یا خاتون کے سرپرست کی طرف سے پیغام نکاح قابلِ شرم فعل ہے؟ ہمارے ہاں خاتون یا خاتون کے سرپرست کی جانب سے پیغامِ نکاح بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ان سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت انس کی بیٹی بولی (کم بخت) کیا بے شرم عورت تھی، ارے تھو، ارے تھو۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ عورت تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا۔ (بخاری) گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہِ راست پیغامِ نکاح دینا حیا کے منافی نہیں ہے بلکہ شرف حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ ایک عورت کسی صالح شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے پیغامِ نکاح دے سکتی ہے۔اسلام کا عمومی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بتلایا ہے کہ لا نکاح الا بولی ’’نکاح ولی کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔ اس طرح کے نادر واقعات سے ایسی صورت میں جب ولی نہ ہو یا عورت خود جرأت کرکے پیغامِ نکاح دے سکتی ہو، اس کا جواز نکلتا ہے، جبکہ بنیاد دین دار شوہر کی طلب ہو۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ایک بیوہ خاتون تھیں، انھوں نے بھی آپ کو پیغامِ نکاح بھجوایا تھا۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں ان کے خاوند خنیس بن خدافہ جو آنحضرت کے اصحاب میں سے تھے، جنگ اُحد میں زخمی ہوئے تھے اور بعد میں شہید ہوگئےتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت حفصہ سے نکاح کے لیے کہامگر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا (بخاری )۔یہ ایک طویل واقعے کا اقتباس ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون یا خاتون کے سرپرست کا اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے پیغام نکاح میں پہل کرنا کوئی قابل اعتراض اور قابلِ شرم بات نہیں ہے، جس طرح بلاوجہ ہمارے معاشرے میں اس بات کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی حدود کی پامالی اور بے حیائی کا کوئی پہلو اس میں شامل نہ ہو۔‘‘
الجواب باسم ملهم الصواب
یہ بات درست ہے کہ کسی صالح مرد کو لڑکی والے خود نکاح کا پیغام بھیج سکتے ہیں، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ متعدد روایات حدیث، صحابہ وتابعین کے واقعات سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ البتہ آج کے دور میں یہ عمل لڑکی خود نہ کرے، اس سے بڑے بڑے فتنے رونما ہورہے ہیں۔ اس لیے اگر ایسا کوئی ارادہ پیدا ہو تو والدین اور سرپرستوں کے توسط سے یہ عمل ہونا چاہیے تاکہ وہ مصلحت کو سامنے رکھ کر کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4310 :