الجواب باسم ملهم الصواب
عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن الكندية لما وقع التخيير اختارت قومها ففارقها فكانت تقول أنا الشقية. «فتح الباري لابن حجر» (٩/ ٣٥٧)
والله أعلم بالصواب
4497 :
میں نے سنا ہے کہ ایک غیر مسلم مؤرخ نے لکھا ہے کہ ایک خاتون کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے ہوا، لیکن رات کو اس خاتون نے آپ علیہ السلام کو دیکھتے ہی أعوذ بالله من الشيطن الرجيم پڑھا اور علیحدہ ہوگئی۔ ایسا واقعہ ہم نے تو سیرت میں نہیں پڑھا، آپ کو اگر اس بارے میں کچھ معلوم ہو تو رہنمائی فرمائیں کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
صحیح بخاری سمیت بہت سے کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے: عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ الجَوْنِ، لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا: «لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ، الحَقِي بِأَهْلِكِ». (صحيح البخاري، ٧/ ٤١) ترجمہ: ’’عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا کہ (ایک عورت) ابنۃ الجون کو جب (نکاح کے بعد) رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا اور رسول اللہ ﷺ اس کے قریب ہوئے تو اس نے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا کہ تو نے بہت بڑی ذات کی پناہ مانگی ہے، اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا‘‘۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اسے اختیار دیا تو اس نے اپنی قوم کے پاس جانا پسند کیا، اس کے بعد وہ ہمیشہ یہ کہا کرتی تھی کہ میں بدبخت ہوں۔
عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن الكندية لما وقع التخيير اختارت قومها ففارقها فكانت تقول أنا الشقية. «فتح الباري لابن حجر» (٩/ ٣٥٧)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4497 :