لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

ایک قادیانی شخص جو نبوت کا دعویدار بھی تھا، اسے ایک مسلم بھائی نے دعویٰ نبوت کی سزا کے طور پر قتل کر دیا، کیا اسلام ایسے قتل کو جائز قرار دیتا ہے؟ یا ایسے دعویدار کا قتل و سزا حکومت کی ذمہ داری ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب

جو شخص ہوش وحواس کی درستگی کی حالت میں نبوت کا دعوی کرے وہ مرتد ہے، اس کا حکم مرتد والا ہے یعنی ایسے شخص کو حکومت وقت تین دن کی مہلت دے گی اگر وہ تین دن میں تائب ہو کر اپنے دعوے سے رجوع کرکے دوبارہ اسلام قبول کرے  تو اس کی توبہ قبول ہوگی لیکن اگر توبہ نہ کرے تو تین دن بعد حاکم وقت اس کو قتل کردے گا ۔ ایسا شخص چونکہ مباح الدم ہوتا ہے یعنی اس کے خون کا احترام باقی نہیں رہتا، اس لئے اگر حاکم وقت کے علاوہ کوئی شخص حاکم کی اجازت کے بغیر مدعی نبوت مرتد کو قتل کرے تو ایسے قاتل کو تعزیری سزا دی جائے گی لیکن اس کو قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا۔ لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اگر واقعی مدعی نبوت کو قتل کیا تو چونکہ یہ قتل حاکم وقت کی اجازت کے بغیر تھا اس لئے قتل کرنے والا شخص تعزیری سزا کا مستحق ہے، لیکن اس کو قصاصا قتل کرنا درست نہیں۔ نیز اگر حاکمِ وقت حالات کے پیشِ نظر اسے بری کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

ومن هنا ينص الفقهاء علی أن من ادعی أنه شريك لمحمد صلی الله عليه وسلم في الرسالة، أو قال بجواز اكتسابها بتصفية القلب وتهذيب النفس فهو كافر. وكذا إن ادعی أنه يوحی إليه وإن لم يدع النبوة. قال القاضي عياض: لا خلاف في تكفير مدعي الرسالة. قال: وتقبل توبته علی المشهور. وقال عبد القاهر البغدادي: قال أهل السنة بتكفير كل متنبئ، سواء كان قبل الإسلام كزرادشت، ويوراسف، وماني، وديصان، ومرقيون، ومزدك، أو بعده، كمسيلمة، وسجاح، والأسود بن يزيد العنسي، وسائر من كان بعدهم من المتنبئين. ومن صدق مدعي النبوة يكون مرتدا؛ لكفره، كذلك لإنكاره الأمر المجمع عليه. ونقل القرافي عن أشهب أنه قال: إن كان المدعي للنبوة ذميا استتيب إن أعلن ذلك، فإن تاب وإلا قتل". (الموسوعة الفقهية الكويتية، 39/40)

(من ارتد عرض) الحاكم (عليه الإسلام استحبابا) علی المذهب لبلوغه الدعوة (وتكشف شبهته) بيان لثمرة العرض (ويحبس) وجوبا وقيل ندبا (ثلاثة أيام) يعرض عليه الإسلام في كل يوم منها خانية (إن استمهل) أي طلب المهلة وإلا قتله من ساعته إلا إذا رجي إسلامه بدائع وكذا؛ لو ارتد ثانيا لكنه يضرب، وفي الثالثة يحبس أيضا حتی تظهر عليه التوبة، فإن عاد فكذلك تتارخانية. قلت: لكن نقل في الزواجر عن آخر حدود الخانية معزيا للبلخي ما يفيد قتله بلا توبة فتنبه (فإن أسلم) فيها (وإلا قتل) لحديث «من بدل دينه فاقتلوه» (وإسلامه أن يتبرأ عن الأديان) سوی الإسلام (أو عما انتقل إليه) بعد نطقه بالشهادتين، وتمامه في الفتح؛ ولو أتی بهما علی وجه العادة لم ينفعه ما لم يتبرأ بزازية. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 4/ 225)

(قوله وإلا قتل) أي ولو عبدا فيقتل وإن تضمن قتله إبطال حق المولی، وهذا بالإجماع لإطلاق الأدلة فتح. قال في المنح: وأطلق فشمل الإمام وغيره، لكن إن قتله غيره أو قطع عضوا منه بلا إذن الإمام أدبه الإمام. اهـ. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 4/ 226)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4495 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل