لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023
جمعہ 09 رمضان 1444 بہ مطابق 31 مارچ 2023

کچھ کمپنیاں اپنے مال کو انشورڈ کروالیتی ہیں مثلا دھاگا بنانے والی کمپنی اپنا خام مال انشورڈ کروالیتی ہے اب اگر خدانخواستہ روئی میں آگ لگ جاتی ہے تو انشورنس کمپنی سے اپنا کلیم لے لیتی ہے اور جو جلی ہوئی روئی ہے وہ انشورنس کمپنی کی ملکیت بن جاتا ہے، پھر انشورنس کمپنی مارکیٹ میں اسے فروخت کردیتی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کو انشورڈ کروایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جس مال کو مارکیٹ فروخت کرتی ہے اس کی خرید وفروخت جائز ہے یا نہیں؟ 

الجواب باسم ملهم الصواب

انشورنس کمپنی کے ساتھ انشورنس کروانے والے کا یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ سالانہ اتنی رقم کمپنی میں جمع کروائے گا معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے اگر کسی قسم کا نقصان ہو گیا تو کمپنی اپنی طے شدہ شرائط کے مطابق اس نقصان کی تلافی کرے گی، لیکن اگر کوئی نقصان نہ ہوا تو یہ رقم قابل واپسی نہیں ہو گی، تو چونکہ اس معاہدہ میں جمع شدہ رقم داؤ پر لگتی ہے کہ یا تو جمع شدہ کم رقم کے بدلے کثیر رقم نقصان کی تلافی کی صورت میں حاصل ہو جائے گی یا پھر پوری رقم ہی ڈوب جائے گی، اس لیے یہ معاہدہ سود اور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔

البتہ نقصان کی تلافی کی صورت میں معاہدے کے تحت کمپنی نے انشورنس کی رقم ادا کر کے جو جلی ہوئی روئی پر قبضہ کیا، اس کے ضمن میں ایک عقد فاسد وجود میں آگیا۔ اور روئی پر انشورنس کمپنی کی ملکیت ثابت ہوگئی، اس کے بعد روئی کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی صورت میں کسی اور کےلیے اس کی خریداری جائز ہوگی۔ 

اما الشركات اللتي تتمحض لتامين الاشياء او المسئوليات ، فوضعها مختلف، لان مايمكن ان يحكم بحله من مجموع اموالها هو راس مالها فقط. اما اقساط التامين ، فانها حصلت عليها الشركة بعقد محظور. فان كان العقد يلتزم ان توفر الشركة للمؤمن له نقدا يعوضه عن الضرر المؤمن عليه، مثل ان يكون التامين للسيارة، والتزم عقد التامين انه ان هلكت او تضررت ، فان شركة التامين تدفع الی صاحبها قيمتها او قيمة اصلاحها نقدا، وذلك مقابل اقساط التامين،فان هذا العقد فيه ربا، لانه لا تماثل بين الاقساط وبين مبلغ التامين. وعلي هذا، فانه عقد باطل مثل الربوا، واقساط التامين التي اخذت من اصحابها كلها حرام.

فلم يبق من المحكوم عليه بالحلال في اموال الشركة الا راس المال. وحينئذ صارت اموال الشركة مخلوطة بالحلال والحرام، فتدخل في الصورة الثالثة من القسم الثالث، وقدمنا في احكام هذا القسم انه لا عبرة فيه بالغلبة، بل يجوز التعامل معها بقدر مافيها من الحلال. فيجوز التعامل المباح مع هذه الشركات بقدر ما عندها من المال الحلال. ولكن ينبغي ان يؤخذ في عين الاعتبار ان قدرا كبيرا من راس المال يصرف عند انشاء الشركة في الحصول علی اصول جامدة، واقامة البنية التحتية قبل ان تشرع الشركة في مزاولة عمليات التامين. وبعد اخذه في الاعتبار يجوز ان تباع اليها اشياء لا تعين في عمليات التامين بصفة مباشرة. وكذلك يجوز ان تشتری منها اشياء بقدر ما فيها من الحلال، حسبما فصلنا في شركات التامين العائلي. (فقه البيوع، المجلد الثاني، الصفحة:1068، 1069)

بخلاف البيع الفاسد فإنه لا يطيب له لفساد عقده ويطيب للمشتري منه لصحة عقده.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، 5/ 98)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4207 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل