موبائل ایپلکیشن کے ذریعے آپ اپنے اکاؤنٹ میں کچھ رقم مینٹیں کریں اور پھر خریداری پر آپ کو کیش بیک کی صورت میں پوائنٹس اور پیسے وصول ہوتے ہیں۔ فرمائیے گا کہ کیا یہ جائز ہیں کہ نہیں؟ اگر بغیر کیس کم از کم بیلنس کا ڈسکاؤنٹ ملتا ہے کسی ہوٹل پر یا پٹرول پمپ پر تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
الجواب باسم ملهم الصواب
موبائل اکاؤنٹ میں متعین مقدار میں رقم رکھنے پر اضافی منٹس اور میسجز یا رقم کی واپسی وغیرہ کی صورت میں جو فوائد دیے جاتے ہیں ان کا حصول جائز نہیں۔ کیونکہ اکاؤنٹ میں جو رقم رکھوائی جاتی ہے وہ کمپنی کے ذمے قرض ہے۔ اس پر ملنے والی سہولیات قرض کے بدلے میں نفع حاصل کرنا ہے۔ اور قرض پر ملنے والا نفع سود کے حکم میں داخل ہے۔ اسی طرح اس اکاؤنٹ کے استعمال کی صورت میں کسی پٹرول پمپ یا ہوٹل پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ بھی چونکہ اسی موبائل کمپنی کی طرف سے اکاؤنٹ میں رقم کے عوض میں دیا جا رہا ہے تو یہ بھی قرض پر نفع دیا جارہا ہے۔
نوٹ: جن صورتوں میں کمپنی کی طرف سے دی گئی سہولیات حاصل کرنا جائز نہیں، اگر کمپنی کا اکاؤنٹ کھولتے ہوئے ان سہولیات کے حصول کی نیت نہ ہو، بلکہ اس اکاؤنٹ کے ذریعے بلوں اور دیگر ادائیگیوں کی سہولت حاصل کرنا مقصود ہوتو اکاؤنٹ کھلواناجائز ہے۔ لیکن کمپنی جو سہولیات فراہم کر دے اور وہ اگرغلطی یا جان بوجھ کر استعمال کر لی جائیں تو انھیں دوبارہ کمپنی کو لوٹا دینا ضروری ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جتنی مالیت کی سہولیات استعمال کر لی گئی ہیں اتنی مالیت کے برابر کمپنی کا کارڈ خرید کر اسے ضائع کر دیا جائے۔
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلی قول الكرخي لا بأس به. (رد المحتار مع الدر المختار، فصل في البيع)
قال محمد -رحمه الله تعالی- لا بأس بأن يجيب دعوة رجل له عليه دين قال شيخ الإسلام هذا جواب الحكم، فأما الأفضل أن يتورع عن الإجابة إذا علم أنه لأجل الدين أو أشكل عليه الحال قال شمس الأئمة الحلواني – رحمه الله تعالی – حالة الإشكال إنما يتورع إذا كان يدعوه قبل الإقراض في كل عشرين يوما وبعد الإقراض جعل يدعوه في كل عشرة أيام أو زاد في الباجات أما إذا كان يدعوه بعد الإقراض في كل عشرين، ولا يزيد في الباجات فلا يتورع إلا إذا نص أنه أضافه لأجل الدين، كذا في المحيط. (الفتاوی الهندية، كتاب الكراهية)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4305 :