اگر کوئی بندہ کسی کے لیے کوئی سامان لائے اور اس کی قیمت سو روپے بنتی ہو اور اگر یہ اس شخص کو بتائے بغیر اس سے ایک سو بیس روپے لے لے تو کیا یہ صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔
الجواب باسم ملهم الصواب
سامان لانے والا شخص پہلے شخص کا وکیل ہوتا ہے، اور وکیل اجرت کا مستحق تب ہوتا ہے جب اجرت طے کی جائے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر پہلے سے دونوں نے کوئی اجرت طے نہیں کی تو وکیل کے لیے سو روپے سے زائد رقم وصول کرنا جائز نہیں۔
المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. (درر الحكام شرح مجلة الأحكام، المادة: 1463)
وكذلك إن اشتری بها مأكولا ونقدها لم يحل أن يأكل ذلك قبل أداء الضمان. (الفتاوی الهندية، كتاب الوديعة، الباب الرابع)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4331 :