الجواب باسم ملهم الصواب
(الف) وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام. (رد المحتار،کتاب البيوع، مطلب کل قرض جر نفعا حرام)
(ب) ولا يجوز قرض جر نفعا. (البحر الرائق،کتاب البيع، فصل في بيان التصرف في المبيع…)
والله أعلم بالصواب
3819 :
ہمارا ایک پورشن ہے جس کا اسٹرکچر بنا ہوا ہے، اس کی فنیشنگ پہ کوئی بارہ لاکھ کا خرچہ ہوگا۔ اگر ہم بارہ لاکھ کا کوئی انویسٹر ڈھونڈتے ہیں اور مکان تیار ہوجاتا ہےتو کرایہ پر دیتے ہیں، اس میں سے آدھا ہمارا اور آدھا انویسٹر کا ہوگا۔ اور اگر کرایہ دار مکان خالی کرتا ہے تو انویسٹر کو کرایہ نہیں ملے گا۔ اور جب نیا کرایہ دار آتا ہے تو مزید کچھ خرچہ کرنا پڑتا ہے، اس میں بھی ہم دونوں کا خرچہ برابر ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟ اور کیا یہ سود تو نہیں؟
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں جو شخص مکان کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے رقم دے گا اس رقم کی حیثیت قرض کی ہوگی، اس کے بعد کرائے کے نام پر جو رقم دی جائے گی وہ قرض پر منافع ہوگا جو سود کے حکم میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگا اس لیے سوال میں ذکر کردہ طریقہ پر انویسٹر سے رقم لے کر معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
(الف) وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام. (رد المحتار،کتاب البيوع، مطلب کل قرض جر نفعا حرام)
(ب) ولا يجوز قرض جر نفعا. (البحر الرائق،کتاب البيع، فصل في بيان التصرف في المبيع…)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر3819 :