ہمارے ہند وپاک میں جو جتنا بڑا بے نمازی ہوتا ہے اس کے جنازے میں بدعات بھی اتنی زیادہ ہوتی ہیں۔ بے نمازی کے بارے میں ائمہ کے اقوال بھی بہت سخت ہیں کہ ایسا شخص مسلمان ہی نہیں جو بالکل نماز نہیں پڑھتا، قتل تک کے فتاوی ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں بہت بڑا نمازی ہوں لیکن نماز کی اہمیت اجاگر کرنے کی خاطر کیا یہ ممکن نہیں کہ جو علمی بڑی شخصیات ہوں وہ اس کے جنازے میں شریک نہ ہوں، بس کچھ قریبی رشتے دار اور امامِ مسجد اس کے جنازے اور تدفین کی کارروائی مکمل کریں؟ جس طرح آپ ﷺ کے پاس مقروض کا جنازہ لایا گیا تو آپ نے خود نہیں پڑھا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع بھی نہیں کیا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
بلا عذر جان بوجھ کر نماز ترک کرنا بڑا گناہ ہے، ایسا شخص فاسق ہے کافر نہیں۔ لہذا انتقال کی صورت میں اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ عام مسلمانوں کو اس کے جنازہ میں شرکت کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کسی مقتدا شخص کو یہ امید ہو کہ نماز جنازہ میں اس کی عدم شرکت سے لوگوں کو عبرت حاصل ہوگی اور نماز پڑھنے کی ترغیب ہوگی تو اس کا شرکت نہ کرنا جائز ہے۔
«التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد» (23/ 287): وأما قوله صلی الله عليه وسلم في هذا الحديث صلوا علی صاحبكم فإن ذلك كان كالتشديد بغير الميت من أجل أن الميت قد غللينتهي الناس عن الغلول لما رأوا من ترك رسول الله صلی الله عليه وسلم الصلاة علی من غل وكانت صلاته علی من صلی عليه رحمة فلهذا لم يصل عليه عقوبة له وتشديدا لغيره. والله أعلم.
عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه قال: قال رسول الله ﷺ: الجهاد واجب عليكم مع كل أمير برًّا كان أو فاجرًا… والصلاة واجبة علیٰ كلّ مسلم برًّا كان أو فاجرًا وإن عمل الكبائر. (سنن أبي داؤد، كتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4516 :