مجھے ایک فتویٰ درکار ہے۔ ایک پاکستانی نوجوان نے سعودی عرب میں تین سال قبل ایک لڑکی سے شادی کی۔ ان کے گھر میں روزانہ لڑکی ٹینشن دیتی رہتی اور معمولی باتوں پر شوہر سے مستقل جھگڑا چلتا رہتا۔ وہ اپنے سسرالی رشتے داروں کو کبھی عزت نہیں دیتی۔ وہ ہر بات میں شوہر کے رشتے داروں سے لڑائی میں لگ جاتی۔ بیوی کی اپنے میکے میں انوالمنٹ کی وجہ سے اس کے والدین، بھائی بہنیں مستقل ان دونوں کے باہمی ذاتی معاملات میں مداخلت کرتے۔ اب اتنی ٹینشن کے بعد وہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، کیوں کہ بیوی چار ماہ سے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس رہ رہی ہے۔ بیوی اور اس کے والدین پاکستان میں شوہر کے گھر والوں سے ملنا بھی نہیں چاہتے۔ اس لڑکی کی اپنے شوہر سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ مجھے طلاق کے طریقے کے حوالے سے فتویٰ درکار ہے۔ مرد کیسے طلاق دے جبکہ وہ پاکستان نہیں آسکتا۔ اگر وہ ایک طلاق قانونی وکیل کے ذریعے کاغذات تیار کرکے دے تو کیا یہ اس کے لیے ضروری ہے کہ تین ماہ تک بیوی سے بات کرے یا اس کے ایس ایم ایس یا کال کا جواب دے؟ یہاں تک کہ دونوں کے نہ ملنے پر نکاح ختم ہوجائے؟ اس لڑکے نے کسی عالم کے مشورے پر ایک طلاق اپنی بیوی کو زبانی دی ہے اور رجسٹرار سے کاغذات بنواکر اس لڑکی کے گھر بھجوادیے ہیں، کیوں کہ وہ لڑکی صرف گھر والوں کی عزت کرانا چاہتی ہے مگر شوہر کے والدین کی عزت نہیں کرتی۔ وہ شوہر کو اپنے ساتھ گھر داماد رکھنا چاہتی ہے اور اپنے بھائیوں سے بے عزت کراتی ہے۔ اب یہ بتائیں کہ اگر یہ لڑکا سعودی عرب میں ہے اور لڑکی پاکستان میں تو اگر دونوں 100 دن نہیں ملیں گے تو کیا اس ایک طلاق پر نکاح 100 دن میں ختم ہوجائے گا؟ کیا دوسری اور تیسری طلاق دینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس لڑکے کا مقصد بیوی کو آزاد کرنا ہی ہے۔
الجواب باسم ملهم الصواب
طلاق دینے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ جب بیوی پاک ہو اور اس پاکیزگی کی حالت میں شوہر نے بیوی سے جماع بھی نہ کیا ہو تو اس وقت وہ اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دے دے، اس طلاق کے بعد تین حیض گزرنے تک طلاق سے رجوع نہ کرے، اور نہ ہی دوسری، تیسری طلاق دے۔ تین حیض گزرنے کے بعد بیوی اور اس کے درمیان جدائی ہو جائے گی۔ دوران عدت بیوی کے مکمل اخراجات شوہر کے ذمے اسی طرح واجب ہوں گے جیسے طلاق سے قبل تھے، البتہ مرد پر عورت سے بات چیت کرتے رہنا یا اس کے پیغامات کا جواب دینا ضروری نہیں۔ صورت مسئولہ میں آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق زبانی دی اور دوسری طلاق کاغذات میں لکھ کر یا لکھوا کر دی تو اگر پہلی طلاق زبانی دی تھی وہ رجعی تھی اور اس طلاق کی عدت کے دوران ہی کاغذات کے ذریعہ ایک طلاق بائن دی تو آپ کی بیوی پر دونوں طلاقیں واقع ہو گئیں، ان طلاقوں میں سے دوسری طلاق بائن ہے جس کے بعد آپ کا اپنی بیوی سے نکاح ختم ہوگیا، اور اگر پہلی طلاق جو زبانی دی تھی وہ طلاق بائن تھی تو اسی طلاق سے نکاح ختم ہو گیا تھا اور دوسری طلاق بائن جو کاغذات کے ذریعہ دی وہ واقع نہیں ہوگی لیکن بیوی پربہر صورت عدت یعنی تین حیض گزارنا لازم ہے۔ البتہ دوران عدت یا عدت کے بعدمیاں اور بیوی جب چاہیں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں۔
قال الحصکفي قي أقسام الطلاق:(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتی تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلی البعض الآخر. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين/ رد المحتار، ٣/ ٢٣١)
قال العلائي: (ونفقة الغير تجب علی الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك). (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار/ ٣/ ٥٧٢)
إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها. (الفتاوی الهندية: كتاب الطلاق، 1\474)
والله أعلم بالصواب
فتویٰ نمبر4505 :