لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما کے اجساد مبارکہ آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے؟ مستند روایات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب

1۔ حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مستند روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ بئر معونہ پر شہید ہونے والے صحابہ کرام میں داخل تھے، قتل کرنے والے کفار نے تمام مسلمانوں کو شہید کرکے صرف ایک صحابی عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا تھا، بعد ازاں کفار میں سے عامر بن الطفیل نے عمرو بن امیہ ضمری سے ایک لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ عامر بن فہیرہ ہیں۔ اس پر عامر بن طفیل نے کہا: میں نے دیکھا تھا کہ قتل کے بعد اس شخص کی لاش آسمان پر بہت اوپر تک اٹھالی گئی تھی اور بعد ازاں اسے واپس زمین پر رکھ دیا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ ان کی لاش کا آسمان کی طرف کچھ دیر اٹھایا جانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے اکرام اور کفار کو خوف زدہ کرنے کے لیے تھا۔

2۔ اسی طرح حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ملا علی قاری اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے کتاب اللطائف کے حوالے سے صرف اسی قدر نقل کیا ہے کہ جب انھیں سولی پر لٹکا کر قتل کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت مقداد اور زبیر رضی اللہ عنہما کو ان کی لاش سولی سے اتارنے کے لیے بھیجا، چنانچہ انھوں نے خفیہ طور پر وہاں پہنچ کر ان کی لاش کو سولی سے اتارا تو ان کی لاش تروتازہ تھی، راستے میں جب ان کا سامنا کفار مکہ سے ہوا تو انھوں نے یہ لاش چھپانے کے لیے زمین پر ڈال دی، اور کفار کے جانے کے بعد جب اس لاش کو دیکھا تو زمین اس لاش کو نگل چکی تھی، اسی لیے انھیں بلیع الأرض کہا جاتا ہے۔

الغرض اتنی بات تو روایت سے ثابت ہے کہ کچھ دیر کےلیے حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا لیکن پھر واپس زمین پر رکھ دیاگیا، مستقل اٹھائے جانے کا ذکر نہیں۔

في البخاري: قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، فَأَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الَّذِينَ بِبِئْرِ مَعُونَةَ، وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ، قَالَ: لَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ مَنْ هَذَا؟ فَأَشَارَ إِلَى قَتِيلٍ، فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ: هَذَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ، فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ، حَتَّى إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الأَرْضِ، ثُمَّ وُضِعَ. (صحيح البخاري، كتاب المغازي)

قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: أن عامر بن الطفيل قال لعمرو بن أمية هل تعرف أصحابك قال نعم فطاف في القتلى فجعل يسأله عن أنسابهم قوله هذا عامر بن فهيرة وهو مولى أبي بكر المذكور في حديث الهجرة قوله لقد رأيته بعد ما قتل في رواية عروة المذكورة فأشار عامر بن الطفيل إلى رجل فقال هذا طعنه برمحه ثم انتزع رمحه فذهب بالرجل علوا في السماء حتى ما أراه قوله ثم وضع أي إلى الأرض وذكر الواقدي في روايته أن الملائكة وارته ولم يره المشركون وهذا وقع عند بن المبارك عن يونس عن الزهري وفي ذلك تعظيم لعامر بن فهيرة وترهيب للكفار وتخويف وفي رواية عروة المذكورة وكان الذي قتله رجل من بني كلاب جبار بن سلمى ذكر أنه لما طعنه قال فزت والله قال فقلت في نفسي ما قوله فزت فأتيت الضحاك بن سفيان فسألته فقال بالجنة قال فأسلمت ودعاني إلى ذلك ما رأيت من عامر بن فهيرة انتهى. (فتح الباري لابن حجر، 7/ 390)

وروى ابن أبي شيبة من طريق جعفر بن عمرو بن أمية عن أبيه- أنّ رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلّم أرسل المقداد والزّبير في إنزال خبيب، بعثه وحده عينا إلى قريش، قال: فجئت إلى خشبة خبيب فحللته فوقع إلى الأرض، وانتبذت غير بعيد، ثم التفت، فلم أره، كأنما ابتلعته الأرض. وذكر أبو يوسف في كتاب «اللطائف» عن الضّحاك- أن النبيّ صلّى اللَّه عليه وسلّم أرسل المقداد والزّبير في إنزال خبيب عن خشبته، فوصلا إلى التنعيم، فوجدا حوله أربعين رجلا نشاوى، فأنزلاه، فحمله الزّبير على فرسه، وهو رطب لم يتغير منه شيء فنذر بهم المشركون، فلما لحقوهم قذفه الزبير فابتلعته الأرض فسمي بليع الأرض. (الإصابة في تمييز الصحابة، 2/ 226)، كذا فيعمدة القاري شرح صحيح البخاري، 17/ 101)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4043 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل