لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
لاگ ان / رجسٹر
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023
منگل 29 شعبان 1444 بہ مطابق 21 مارچ 2023

كوئی شخص اپنے پیسوں سے كاروبار كرتاہےاور پھر دوسرے لوگوں كےشیئرز کی رقم بھی اس میں شامل كرلیتا ہے، اور شرط یہ ركھتا ہے كہ نفع ونقصان میں سب شركاء برابر ہیں، جس كا جتنا سرمایہ ہوگا اسی حساب سےاس كو نفع ملے گا، اور اگر نقصان ہوا، تو سب كو اپنے حصوں كے اعتبار سے نقصان بھی برداشت كرنا ہوگا، اورمحنت صرف ایك شخص ہی كرے گا، جبكہ اس كے كچھ ملازم بھی ہوں گے، تو اس طرح شركت میں حصہ لینا اسلامی شریعت میں كیسا ہے؟ برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔

الجواب باسم ملهم الصواب

اس شرط كے ساتھ شركت كا معاملہ كرنا شرعا درست ہے كہ سب كو ملنے والا نفع كاروبار میں نفع حاصل ہونے كی صورت میں ملے گا اور اسی طرح اگر خسارہ ہوجائے توخسارہ كو تمام شركاء پر بقدر سرمایہ ڈالا جائے گا، نیز شركت كی اہم شرائط میں ایك شرط یہ بھی ضروری ہے كہ جوشخص صرف رقم سے شریك ہو عمل اس كےذمے نہ ہو تو منافع میں اس كا حصہ  سرمایہ كے تناسب سے زیادہ متعین كرنا درست نہیں۔

نیز مذكورہ شرائط كے علاوہ کچھ اہم شرائط درج ذیل ہیں:

(۱) دونوں کو ملنے والانفع، کاروبار میں نفع حاصل ہونے کی صورت پر موقوف ہو یعنی اگر کاروبار میں نفع ہوا تو دونوں کو آپس میں مقرر کردہ تناسب سے نفع ملے گا اور اگر کوئی نفع نہ ہوا تو دونوں کو کچھ نہیں ملے گا۔

(۲) نفع متعین كركے شراكت داری كرنا شرعا ممنوع ہے یعنی كاروبار میں رقم لگا كر نفع كو متعین كردینا مثلا یہ كہنا كہ ہر مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع كے طور پر اتنی رقم دی جائے۔

(۳) شركت کے عقد میں فریقین میں ہر ایك كو یہ حق حاصل ہے كہ عقد ِ شركت جس وقت چاہے ختم كردے۔

نیز معاہدہ تحریری ہونا چاہئے، جس میں تمام حقوق اور ذمے داریوں كی مكمل وضاحت ہو، اور معاہدے میں كسی قسم كا كوئی ابہام نہ ہو جوكہ آگے چل كر فریقین میں باہمی نزاع اور جھگڑے كا باعث بن سكتا ہو۔ نیز بہتر ہے كہ گواہوں كی موجودگی میں نفع نقصان، ادائیگی رقم كی تاریخ اور دیگر اہم امور لكھ لیے جائیں۔ مذکورہ بالا تمام باتوں کے علاوہ ان تمام امور کا شرعی احکام کے مطابق خیال رکھنا جو عملی طور پر شركت  کے معاملات میں مختلف حالات اور مواقع پر پیش آتے ہوں۔

 (قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه)وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلی ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح علی ما شرطا، والوضيعة علی قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدی أو أكثر عملاً فلايرضی بالمساواة؛ فمست الحاجة إلی التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلی قرض باشتراطه للعامل، أو إلی بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتی لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملا (البحرالرائق،۵/۱۸۸)
 

المادة(۱۳۷۰) إذا شرط الشريكان تقسيم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما سواء كان رأس مالهما متساويا أو متفاضلا صح , ويقسم الربح بينهما بنسبة رأس مالهما علی الوجه الذي شرطاه سواء شرط عمل الاثنين أو شرط عمل واحد منهما فقط فيكون رأس مال الآخر في يده في حكم البضاعة. (مجلة الأحكام العدلية،ص: ۲۶۲)

والله أعلم بالصواب

فتویٰ نمبر4605 :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


لرننگ پورٹل