لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

مہلتِ عمل کو غنیمت سمجھیں

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺلِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ:«اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ»(مستدرک حاکم)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، دولت مندی کو غریبی سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘۔

تشریح 

علامہ مظہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان پانچ چیزوں کو غنیمت سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی کے ایام میں نیک اعمال کر لو،اسی طرح بیماری سے پہلے حالتِ صحت، غریبی سے پہلے امیری میں، مشغولیت سے پہلے فراغت میں اور موت سے پہلے زندگی میں نیک اعمال کر لو‘‘۔(المفاتیح فی شرح المصابیح)انسان کی ایک بیماری مہلت طلبی ہے کہ وہ خود کو مہلت دیتا ہے ’’عن قریب میں نیکی کروں گا‘‘، یہ عام انسانی خیال ہے ۔بعض روایات میں اسے تسویف کہا گیا کہ’’ سَوف سَوف (عن قریب عن قریب) کرنے والے ہلاک ہو جائیں گے‘‘ ۔ یہ انسان کی خواہشیں ہوتی ہیں جو اسے خود کو ڈھیل دینے پر آمادہ کرتی رہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ (الحجر:۳) ’’انھیں چھوڑ دیں وہ کھاتے پیتے رہیں اور تمتع کرتے رہیں، عن قریب وہ جان لیں گے‘‘۔ انسان اپنی خواہشات کے پیچھے لگا رہتا ہے اور نیکی کے کاموں کو سوفَ سوفَ کہہ کر موخر کرتا رہتا ہے ۔ جوانی کے وہ ایام جن میں قوتِ کار اور طاقتِ عبادت زیادہ ہوتی ہے بے کار کاموں میں ضائع کر دیتا ہے۔ جب جوانی کا جوش ختم ہوتا ہے اور بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو انسان میں عبادت کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہےلیکن اب اس میں محنت کی سکت باقی نہیں رہتی ۔ اسی طرح حالتِ صحت میں انسان دنیا کی دل چسپی میں لگا رہتا ہے لیکن جب اس پر کوئی بیماری حملہ آور ہوتی ہے تو اس کا دل نرم ہو کر عبادت کی طرف راغب ہوتا ہے لیکن وہ بیماری کے سبب کر کچھ نہیں سکتا۔ یہی مثال زندگی موت اور امیری غریبی کے بارے میں ہے کہ جب یہ ناگہانیاں آ جاتی ہیں اور انسان سے مہلتِ عمل چھن جاتی ہےتو حسرت و افسوس کے سوا اِسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ قرآنِ کریم میں یہ نقشہ یوں کھینچا گیا ہے : ﴿حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِلَعَلِّيَ أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ﴾(المؤمنون:۹۹، ۱۰۰)’’اور یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے لوٹا دے تاکہ میں اس دنیا میں نیک عمل کر سکوں جسے میں چھوڑ آیا‘‘۔ایک اورجگہ فرمایا گیا:﴿وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبـِّكُم مِّن قَبْلِ أَنْ يَّاتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لاَ تَشْعُرُونَأَن تَقُولَ نَفْسٌ يَاحَسْرَتَى عَلَى مَا فَرَّطْتُّ فِي جَنبِ اللَّهِ﴾ (الزمر:۵۵، ۵۶)’’اور پیروی کرو اس عمدہ کلام کی جو نازل کیا گیا ہے اللہ کی طرف سے اس سے پہلے کہ اچانک اللہ کا عذاب آ جائے اور تمھیں پتا بھی نہ چلے، تب کوئی شخص کہے کہ ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کی جناب میں کی‘‘۔اس حسرت و یاس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مہلتِ عمل کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں رہیں ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کاایک فرمان اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے:إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ المَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ (صحیح بخاری) ’’جب تمھاری شام ہو تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو بلکہ اپنی صحت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے مرض کے لیے توشہ جمع کرو اور اپنی زندگی کو مہلت سمجھتے ہوئے اپنی موت کے لیے زادِ راہ مہیا کرتے رہو‘‘۔  ایامِ صحت میں ایامِ مرض کے لیے توشہ جمع کرنےسے مطلب یہ ہے کہ ایامِ صحت میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کر لو، اس بات کو ان احادیث سے بھی جوڑا جا سکتا ہے جن کے مطابق ایامِ صحت میں کیے جانے والے نیک اعمال کا اجر و ثواب ایامِ مرض میں بھی ملتا رہے گا ۔ زندگی میں موت کے لیے سرمایہ مہیا کرنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ زندہ رہتے ہوئے موت کے بعد والی زندگی کی کامیابی کے لیے نیک اعمال کر لو۔ اور اس بات کو اس سے بھی جوڑا جا سکتا ہے کہ زندگی کی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تم ایسے نیک اعمال کر لو جن کا اجر و ثواب موت کے بعد بھی صدقۂ جاریہ بن کر تمھیں ملتا رہے۔

مہلتِ عمل سے فائدہ اٹھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان وقت ضائع نہ کرے اور آج کا کام آج ہی آج انجام دینے کی کوشش کرے کہ نیکی پانے کا یہی راستہ ہے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : إِنَّ الْقُوَّةَ فِي الْعَمَلِ أَنْ لَا تُؤَخِّرُوا عَمَلَ الْيَوْمِ لِغَدٍ (مصنَّف ابنِ ابی شیبہ) ’’عمل کی قدرت و طاقت یہی ہے کہ آج کے کام کو کل پر موخر نہ کرو‘‘۔ 

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
لرننگ پورٹل