لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

مولانا محمد اقبال
رکنِ شعبۂ تحقیق و تصنیف

نیک لوگوں کی پیشوائی کی دعا

سورۃ الفرقان آیت: ۷۴تا ۷۷

وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا هَب لَنَا مِن أَزوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ أَعیُنٍ وَّاجْعَلنَا لِلمُتَّقِینَ إِمَامًا، أُولٓئِکَ یُجْزَونَ الغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّونَ فِیهَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا، خٰلِدِینَ فِیهَا حَسُنَت مُستَقَرًّا وَّمُقَامًا،قُل

مَا یَعبَؤُا بِکُم رَبِّي لَو لَا دُعَآؤُکُمفَقَد کَذَّبتُم فَسَوفَ یَکُونُ لِزَامًا

’’اور جو (دعا کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے۔ یہ لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالاخانے عطا ہوں گے، اور وہاں دعاؤں اور سلام سے ان کا استقبال کیا جائے گا۔ وہ وہاں ہمیشہ زندہ رہیں گے، کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے وہ بہترین جگہ ہے۔ (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ: میرے پروردگار کو تمہاری ذرا بھی پروا نہ ہوتی، اگر تم اس کو نہ پکارتے، اب جبکہ (اے کافرو) تم نے حق کو جھٹلا دیا ہے تو یہ جھٹلانا تمہارے گلے پڑ کر رہے گا‘‘۔

تفسیر وتوضیح 

سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور مقبول بندوں کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ ہو رہا ہے، یہ در حقیقت وہ اوصاف ہیں جن سے متصف ہو کر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں یعنی ’’عباد الرحمٰن‘‘ کی صف میں جگہ پا لیتا ہے۔ ان بلند اوصاف میں سے ہم باقی اوصاف کا ماقبل کی آیات کے ضمن میں مطالعہ کر چکے ہیں، جبکہ حسبِ بالا مذکورہ آیات کے مطالعےکے ضمن میں آخری وصف کا ذکر کیا جائے گا۔

﴿وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا هَب لَنَا مِن أَزوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ أَعیُنٍ وَّاجْعَلنَا لِلمُتَّقِینَ إِمَامًا﴾ ’’اور جو (دعا کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے‘‘۔ اب تک سورۃ الفرقان کی آخری آیات میں بیان کیے گئے مومنین مخلصین کے اوصافِ حمیدہ میں سے یہ آخری وصف ہے۔ یہاں بندۂ مومن کا یہ وصف بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کے لیے اللہ تعالیٰ سے انھیں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی دعا مانگتا ہےاور ساتھ ساتھ یہ بھی مانگتا ہے کہ ہمیں متقین کا پیشوا بنادیں۔ اس دعا میں آنکھوں کی ٹھنڈک سے کیا مراد ہے، اس کے متعلق حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں: يَعْنونَ مَن يعمل بطاعة الله فتَقَرُّ به أعينُهم في الدنيا والآخرة. (ابنِ کثیر، ج:۶، ص:۱۱۹) ’’اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ والدین کے لیے دنیا و آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنتا ہے‘‘۔ اسی طرح امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أَنَّهُ لَا شُبْهَةَ أَنَّ الْمُرَادَ أَنْ يَكُونَ قُرَّةَ أَعْيُنٍ لَهُمْ فِي الدِّينِ لَا فِي الْأُمُورِ الدُّنْيَوِيَّةِ مِنَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ. (تفسیرِ کبیر، ج:۲۴، ص:۴۸۶) ’’اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ یہاں اس سے مراد ہے کہ اہل وعیال، ان کے لیے دین کے معاملے میں آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، نہ کہ دنیوی امور میں، مثلاً، مال اور جمال میں‘‘۔ ان اقوال سے معلوم ہوا کہ خاندان کے سربراہ کے لیے یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحسن ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کے لیے یہ دعا مانگے کہ وہ دین کے معاملے میں اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔ اسی طرح اس دعا سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ کے نیک بندے صرف اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے اعمال کی درستی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ انھیں اپنے اہل وعیال کے اعمال و اخلاق کی اصلاح کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے، وہ اس کے لیے کوشش جاری رکھتے ہیں، اس میں ان کے لیے دعا بھی داخل ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب

مذکورہ دعا کے اگلے حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے جہاں اپنے اہل و عیال کے نیک انجام کے لیے دعا مانگتے ہیں وہاں وہ ساتھ ساتھ یہ دعا بھی مانگتے ہیں کہ ہمیں نیک لوگوں کا پیشوا بنادیں۔ اس میں واضح طور پر اپنے لیے بڑائی اور جاہ ومنصب کی خواہش ظاہر کی گئی ہے جو دیگر نصوص کی رو سے بالکل ممنوع ہے۔ جیسے کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا﴾ (سورة القصص:۸۳)  ’’وہ آخرت والا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں نہ تو بڑائی چاہتے ہیں، اور نہ فساد‘‘۔ تو یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نصوص کی رو سے بڑائی کی خواہش کرنا جائز نہیں ہے جبکہ یہاں زیرِ مطالعہ آیت مبارکہ میں باقاعدہ اس کے لیے دعا مانگی جا رہی ہے۔ اس اشکال کے جواب میں مفسرین نے فرمایا کہ اس میں بڑائی کی خواہش نہیں ہے، بلکہ یہ بڑائی دعا کے پہلے حصے کا نتیجہ ہے، کیونکہ باپ عام طور سے اپنے خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ جب وہ ایک جائز دعا مانگتا ہے کہ میرے بیوی بچوں کو پرہیزگار بنا کر میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دیجیے، تو وہ پرہیزگاروں کا سربراہ آپ سے آپ بن جاتا ہے، یعنی یہ دعا کے پہلے حصے کا لازمی نتیجہ ہے۔ لہذا یہاں اپنی بڑائی کی دعا نہیں بلکہ اولاد وازواج کے متقی بننے کی دعا ہے، جب وہ متقی ہو جائیں گے تو لامحالہ گھر کا سربراہ متقین کا امام و پیشوا کہلائے گا۔ ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے، جبکہ دوسرا جواب امام رازی رحمہ اللہ نے بعض مفسرین حضرات کا یہ نقطۂ نظر بیان کر کے دیاہے، وہ فرماتے ہیں: قَالَ بَعْضُهُمْ فِي الْآيَةِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الرِّيَاسَةَ فِي الدِّينِ يَجِبُ أَنْ تُطْلَبَ وَيُرْغَبَ فِيهَا قَالَ الْخَلِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ:﴿وَاجْعَلْ لِي لِسانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ﴾(تفسیرِ کبیر، ج:۲۴، ص:۴۸۶) ’’بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ دین کے معاملے میں پیشوائی طلب کرنا اور اس کی خواہش کرنا ضروری ہے، اس پر یہ آیت دلیل ہے، اس لیے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا ہے: ’’اور آنے والی نسلوں میں میرے لیے وہ زبانیں پیدا فرمادے جو میری سچائی کی گواہی دیں‘‘۔ یعنی بڑائی اور جاہ ومنصب کی خواہش دنیوی امور میں ناجائز ہے اور دینی امور میں بالکل جائز اور مستحسن عمل ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

عباد الرحمٰن کا انعام

جب ان آیات میں مومنین مخلصین کے اوصاف بیان ہوئے تو ان کی تکمیل پر ان کے بدلے اور انعام کے متعلق فرمایا: ﴿أُولٓئِکَ یُجزَونَ الغُرفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَیُلَقَّونَ فِیهَا تَحِیَّةً وَّسَلٰمًا، خٰلِدِینَ فِیهَا حَسُنَت مُستَقَرًّا وَّمُقَامًا﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالاخانے عطا ہوں گے، اور وہاں دعاؤں اور سلام سے ان کا استقبال کیا جائے گا۔ وہ وہاں ہمیشہ زندہ رہیں گے، کسی کا مستقر اور قیام گاہ بننے کے لیے وہ بہترین جگہ ہے‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں مقربینِ خاص جو رحمٰن کے بندوں کے اوصاف سے متصف ہوں گے، ان کے اجر کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ جنت کے بالا خانوں میں نہایت سلامتی اور بقاے دوام کے ساتھ براجمان ہوں گے، یہ جگہ قیام کے لحاظ سے بہترین جگہ ہے۔ غرفہ کے لغوی معنی بالاخانہ کے ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں رحمٰن کے بندوں کے لیے ایسے بالا خانے ہوں گے جو عام اہلِ جنت کو ایسے نظر آئیں گے جیسے زمین والے ستاروں کو دیکھتے ہیں۔(صحیح مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا يُرَى ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا» فَقَالَ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَبَاتَ قَائِمًا وَالنَّاسُ نِيَامٌ» (مستدرکِ حاکم)’’جنت میں ایسے غرفے ہوں گے جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا‘‘۔ ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ غرفے کن لوگوں کے لیے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص اپنے کلام کو نرم اور پاک رکھے اور بھوکوں کو کھانا کھلائے اور رات کو اس وقت تہجد کی نماز پڑھے جب لوگ سورہے ہوں‘‘۔ اس حدیث مبارکہ میں یہاں عباد الرحمٰن کے اوصاف میں سے صرف تین اوصاف کی نشاندہی کی گئی ہے، جبکہ دیگر روایات میں باقی ماندہ وہ تمام اوصاف ذکر کیے گئے ہیں، جو سورۃ الفرقان کی آخری آیات میں ہم ماقبل میں تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں۔ لہذا ان اوصافِ حمیدہ کے مصداق مقربین بارگاہِ الٰہی کو ان کے اعمال کے بدلے ہمیشہ کے لیے جنت کے بالاخانے عطا ہوں گے اور وہاں ان کا ان کے مرتبے کے شایانِ شان استقبال کیا جائے گا۔

ہر آدمی اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے 

آخر میں ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ درست راستے کی نشاندہی کے بعد جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو راہِ حق سے روگردانی کرتا ہے وہ بھی اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے۔ البتہ دونوں کا انجام الگ الگ ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿قُل مَا یَعبَؤُا بِکُم رَبِّي لَو لَا دُعَآؤُکُم، فَقَد کَذَّبتُم فَسَوفَ یَکُونُ لِزَامًا﴾ ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ: میرے پروردگار کو تمہاری ذرا بھی پروا نہ ہوتی، اگر تم اس کو نہ پکارتے، اب جبکہ (اے کافرو) تم نے حق کو جھٹلا دیا ہے تو یہ جھٹلانا تمہارے گلے پڑ کر رہے گا‘‘۔ یعنی تم میں سے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، وہ ضرور اس کا صلہ پائیں گے، خدا نخواستہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے رجوع نہ کرتے، اور اس کی عبادت سے روگردانی کرتے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پروا نہیں تھی، چونکہ تم نے اپنے لیے صحیح راستہ اختیار کیا اس لیے تمھارا انجام نیک ہے۔ مومنین مخلصین سے خطاب کے بعد آگے کافروں کو مخاطب کیا گیاہے کہ حق اور باطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کے بعد بھی جب تم نے حق کو جھٹلانے کی روش اختیار کر رکھی ہے تو تمہارا یہ طرزِ عمل آخرت کے عذاب کی شکل میں تمہارے گلے پڑے گا اور تمھیں بہر صورت انجامِ بد سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح معنوں میں رحمٰن کے بندوں کے مذکورہ اوصافِ حمیدہ کا مصداق بنائیں اور خدا کے مقبول بندوں کی روش اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

لرننگ پورٹل