لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

مدیر
ماہنامہ مفاہیم، کراچی

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دنیا سے کیا اٹھے سمجھو پورے جہاں کی موت ہو گئی اور پوری دنیا اندھیر ہو گئی۔ مشہور مقولہ موت العالِم موت العالَم ’’ ایک عالم کا مرنا پورے جہاں کی موت کے برابر ہے ‘‘ یونہی تو مشہور نہیں ہوا۔عالم کی موت کا دکھ، صحیح طور پر تو علم والا ہی محسوس کر سکتا ہے چنانچہ حضرت کعب الاحبار رحمہ اللہ عالِم کی موت کو یوں بیان کرتے ہیں: نَجْمٌ طُمِسَ ’’ ایک تارا تھا جو ڈوب گیا‘‘ كَسْرٌ لَا يُجْبَرُ ’’ایسا توڑ کہ جس کا جوڑ نہیں‘‘ ثُلْمَةٌ لَا تُسَدُّ ’’ایسا نقصان جس کی تلافی نہیں‘‘ ۔ان اقوال کی کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ محض مبالغے اور حساسیت ہی پر مبنی ہیں اسے سمجھنے کے لیے غور کریں کہ علم زندگی بھی ہے اور روشنی بھی۔ کلامِ الہی میں اس کے بے شمار اشارے ملتے ہیں ﴿أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ﴾ ’’ارے دیکھو وہ جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو نور دیا جسے لیے وہ لوگوں میں پھرتا ہے‘‘ ۔ دیکھیں یہاں مردے کو زندہ کیا گیا تو اسے نور سے نوازا گیا۔حدیثِ مبارکہ میں فتنوں سے محفوظ شخص کے بارے میں فرمایا گیا: «مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ» (مسند احمد) ’’جسے زندہ کیا اللہ نے علم کے ذریعے سے‘‘ ۔ پس جب علم زندگی ہے تو عالِم؛ جہان کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے، تو جس نے بھی عالم کی موت کو کل جہان کی موت قرار دیا تو اس نے ہرگز مبالغہ نہیں کیا۔ رہی دوسری بات کہ علم روشنی ہے تو حدیثِ مسند احمد میں علماکو «النُّجُومُ فِي السَّمَاءِ» ’’آسمان کے ستارے‘‘ کہا گیا۔ اسی لیے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے استاذ حضرت محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے لیے کہا کرتے كَانَ الشّافِعِيُّ كَالشّمسِ لِلدُّنْيا ’’امام شافعی تو دنیا کے لیے سورج کی مانند تھے‘‘ ۔ انھی تاروں سے تو لوگ راستہ پاتے ہیں ﴿وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ﴾ (النحل:16) اور اسی روشنی کی بنیاد پر وہ لوگوں کے پیشوا بنتے ہیں تو ہدایتِ مزید کا ذریعہ بنتے ہیں: ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾ (الأنبياء: ۷۳) اور ہم نے انھیں پیشوا بنایا وہ ہمارے حکم سے ہدایت دیتے ہیں‘‘ ۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے: «إِنَّ مَثَلَ الْعُلَمَاءِ كَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ، يُهْتَدَى بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُومُ أَوْشَكَ أَنْ يَضِلَّ الْهُدَاةُ» (مسند احمد ) ’’بے شک علما کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان کے تارے جو خشکی و تری کے اندھیروں میں رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پس جب تارے ڈوب جائیں تو خدشہ ہے کہ راہِ راست کے متلاشی گم راہ ہو جائیں‘‘ ۔ تو مرنے والے عالِم پر ایک عالَم رو رہا ہے۔ یہ کسی بیماریوں سے ہارے بوڑھے مریض کا نوحہ نہیں ہے نہ ہی باپ یادادا کا ماتم ہے، یہ تو اصل میں علم کا نوحہ ہے۔ یہ غم اُس علم کے اٹھ جانے کا ہےجو وہ ساتھ لے کر چلا گیا۔ بے شک حضرت ِ رفیع کی علمی روایت ان کے شاگردوں نے آپ سے لے کر محفوظ کر لی ہو گی، جو ان کے علم کے فروغ کا ذریعہ بنتے رہیں گے لیکن بات صرف روایت کی ہے اصل مسئلہ تو اس فقاہت کا ہے جو آپ ساتھ چلی گئی۔ اس لیے کہ علم کے چمن میں فقاہت کی دیدہ وری بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔تو عالم کے الفاظ تو آپ نے لے لیے اس کے معنی کا کیا کریں گے، روایت تو آپ نے لے لی اس کی درایت کہاں سے لیں گے اس کی کہاوت تو لے لی اس کی فقاہت کا کیا کریں وہ تو اس کے ساتھ ہی چلی گئی۔رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو سیدہ ام ایمن کا رونا تھا کہ تھمنے میں نہیں آتا تھا چنانچہ انھوں نے تسلی دینے والوں کو یوں جواب دیا: إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَيَمُوتُ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَبْكِي عَلَى الْوَحْيِ الَّذِي رُفِعَ عَنَّا (مسند احمد) ’’میں جانتی تھی کہ عنقریب آپ ﷺ پردہ فرما جائیں گے لیکن میں تو اس وحی پر روتی ہوں جو آپ ﷺ کے اٹھنے کے بعد منقطع ہوگئی‘‘ ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی موت پر ان کے شاگرد حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یوں تبصرہ کیا : لَقَدْ ذَهَبَ الْيَوْمَ عِلْمٌ كَثِيرٌ (مجمع الزوائد) ’’آج تو علمِ کثیر چلا گیا ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سانحۂ ارتحال پر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں اظہار خیال کیا: مَاتَ تِسْعَةُ أَعْشَارِ الْعِلْمِ ’’یقینا نوے فیصد علم فوت ہوگیا‘‘ (حلیۃ الاولیاء )

مولانا محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کی موت کسی عام عالِم کی موت سے بھی کچھ بڑا سانحہ ہے کہ آپ علم حلال و حرام کے ماہر تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ملتا ہے فرماتے ہیں: لَمَوْتُ أَلْفِ عَابِدٍ قَائِمٍ اللَّيْلَ صَائِمٍ النَّهَارَ أَهْوَنُ مِنْ مَوْتِ الْعَاقِلِ الْبَصِيرِ بِحَلَالِ اللَّهِ وَحَرَامِهِ (جامع بیان العلم لابن البر)’’ قیام و صیام کے پابند ہزار زاہدوں کی موت ہلکی مصیبت ہے اس ایک عاقل و بینا عالم کی موت کے سامنے جو حلال و حرام کی معرفت رکھتا ہو‘‘۔

ہمارے نامے، اعمال کے لحاظ سے کورے ہی ہیں۔ ہاں اگر ہمارے دامن میں کچھ ہے تو ان عالِموں کی محبت وعقیدت ہی ہے۔ چنانچہ حضرت کی موت نے ہمارے جسم و جان کے تار جھنجلا دیے ہیں، ہمیں حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بے اختیار یا د آتا ہے: إنّي أُخْبَرُ بِمَوتِ الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ فَكَأَني أَفْقُدُ بَعْضَ أَعْضَائي (حلیۃ الاولیاء ) ’’جب میں اہلِ سنت کے کسی عالم کے انتقال کی خبر سنتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرے تن بدن کا کو کوئی حصہ مجھے سے کھو گیا ‘‘!!

لرننگ پورٹل